تادائرہ خلقت اپنے استدرات کاملہ کو پہنچ جائے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۹۹، خزائن ج۱۷ ص۲۶۰)
اس وقت حسب منطوق آیت ’’وآخرین منہم لما یلحقوا بہم‘‘ اور نیز حسب منطوق آیت ’’قل یا ایہا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعاً‘‘ آنحضرتﷺ کی دوسرے بعثت کی ضرورت ہوئی اور ان تمام خادموں نے جو ریل اور تار اور اگن بوٹ اور مطابع اور احسن انتظام ڈاک اور باہمی زبانوں کا علم اور خاص کر ملک ہند میں اردو نے جو ہندوؤں اور مسلمانوں میں ایک زبان مشترک ہوگئی تھی۔ آنحضرتﷺ کی خدمت میں بزبان حال درخواست کی کہ یا رسول اﷲﷺ ہم تمام خدام حاضر ہیں اور فرض اشاعت پورا کرنے کے لئے بدل وجان سرگرم ہیں۔ آپ تشریف لائیے اور اس اپنے فرض کو پورا کیجئے۔ کیونکہ آپ کا دعویٰ ہے کہ میں کافۂ ناس کے لئے آیا ہوں اور اب یہ وہ وقت ہے کہ آپ ان تمام قوموں کو جو زمین پر رہتے ہیں۔ قرآنی تبلیغ کر سکتے ہیں اور اشاعت کو کمال تک پہنچا سکتے ہیں…… تب آنحضرتﷺ کی روحانیت نے جواب دیا کہ دیکھو میں بروز کے طور پر آتا ہوں۔ مگر میں ملک ہند میں آؤں گا۔ کیونکہ جوش مذاہب اور اجتماع جمیع ادیان اور مقابلہ جمیع ملل وغل اور امن وآزادی اسی جگہ ہے اور نیز آدم علیہ السلام اسی جگہ نازل ہوا تھا۔ پس ختم دور زمانہ کے وقت بھی وہ جو آدم کے رنگ میں آتا ہے۔ اسی ملک میں اس کو آنا چاہئے۔ تاآخر اور اوّل کا ایک ہی جگہ اجتماع ہوکر دائرہ پورا ہو جائے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۱۰۱، خزائن ج۱۷ ص۲۶۲،۲۶۳)
’’یہ وہ ثبوت ہیں جو میرے مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے پر کھلے کھلے دلالت کرتے ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ ایک شخص بشرطیکہ متقی ہو۔ جس وقت ان تمام دلائل میں غور کرے گا تو اس پر روز روشن کی طرح کھل جائے گا کہ میں خدا کی طرف سے ہوں۔ ‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۰۱، خزائن ج۱۷ ص۲۶۴)
یہ اقتباس کسی تنقید کا متحمل نہیں ہوسکتا اور مرزاقادیانی کا استدلال اس قابل نہیں کہ اسکا مفصل جواب دیا جائے۔ اگر متذکرہ بالا آیات کو قرآن میں اپنے سیاق وسباق کے ساتھ دیکھا جائے تو سرسری مطالعے سے واضح ہو جائے گا کہ ان آیات کا اس مفہوم کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں جو مرزاقادیانی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
قرآن کے ساتھ مرزاقادیانی کی اس آزادی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت احمدیہ میں اس طرح کی تفسیر کرنا ایک بڑا کارنامہ اور قابل قدر کام سمجھا جاتا ہے۔ موجودہ خلیفہ صاحب بارہا اس امر کا دعویٰ کر چکے ہیں کہ وہ قرآن کی ہر آیت سے مرزاغلام احمد قادیانی کی صداقت