اسرائیلی واسماعیلی انبیاء کے جد امجد تھے۔ بنی اسرائیل کے سینکڑوں انبیاء بائبل میں حضرت ابراہیم کی اطاعت واتباع کا دم بھرتے ہیں۔ پھر یہی انبیاء حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اتباع پہ ناز کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انجیل میں حضرت مسیح علیہ السلام باربار فرماتے ہیں کہ میں تورات کو منسوخ کرنے نہیں آیا۔ بلکہ اسے پورا کرنے آیا ہوں۔ حضورﷺ کو حکم ہوتا ہے کہ: ’’واتبع ملۃ ابراہیم حنیفا (النسائ:۱۲۵)‘‘ {اے رسول، دین ابراہیمی کی پیروی کر۔}
نیز ارشاد ہوتا ہے۔ ’’یرید اﷲ لیبین لکم ویہدیکم سنن الذین من قبلکم ْ(النسائ:۲۶)‘‘ {اﷲ کا ارادہ ہے کہ وہ صداقت کو کھول کر بیان کردے اور تمہیں اسلاف کی مقدس راہوں پہ ڈال دے۔}
شروع میں ہم اس حقیقت کو واضح کر چکے ہیں کہ اسلام کسی نئے مذہب کا نام نہیں۔ بلکہ یہ اسی ازلی وابدی حقیقت کا اعادہ تھا۔ جو سب سے پہلے آدم علیہ السلام اور اس کے بعد دیگر انبیاء کو نوبت بہ نوبت ملتی رہی۔ اس لئے صداقت کا متلاشی اسلاف کی راہوں پہ چلنے کے لئے مجبور ہے۔ ہر نبی اپنی امت کے لئے مطاع تھا۔ ’’وما ارسلنا من رسول الالیطاع (النسائ:۶۴)‘‘ {ہر نبی اس لئے بھیجا جاتا ہے کہ دنیائے انسانی اس کی اطاعت کرے۔}
اور اسلاف کا مطیع یعنی امتی۔ اس لئے ہر نبی رسول بھی ہوتا ہے اور امتی بھی۔ چونکہ حضرت آدم کے بغیر کوئی اور رسول غیر امتی ہے ہی نہیں اور چونکہ آنحضرتﷺ کے بعد وحی رسالت کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ حضور علیہ السلام کے بعد امتی انبیاء آسکتے ہیں تو پھر نبوت کا سلسلۂ ختم کیسے ہوا۔ غیر امتی نبی تو ہوتا ہی کوئی نہیں۔ اس کی مثال یوں ہے کہ حکومت اعلان کے رو سے فوج میں سپاہیوں کی بھرتی بند کر دے۔ اس کے باوجود ایک ریکروٹنگ آفیسر دھڑا دھڑ بھرتی کرتا جائے اور جواب طلبی پہ کہے کہ حکومت نے صرف ایسے سپاہیوں کی بھرتی سے منع کیا تھا۔ جن کی تین ٹانگیں اور چار کان ہوں اور اپنے جواب کی تائید میں نہ تو حکومت کی کوئی چٹھی پیش کر سکے اور نہ تین ٹنگے سپاہیوں کا وجود ثابت کر سکے۔
’’اگر میری گردن کے دونوں طرف تلوار رکھ دی جائے اور مجھے کہا جائے کہ تم یہ کہو کہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو میں کہوں گا کہ تو جھوٹا ہے۔ کذاب ہے۔ آپ کے بعد نبی آسکتے ہیں اور ضرور آسکتے ہیں۔‘‘ (انوار خلافت ص۶۵، مصنفہ میاں محمود احمد قادیانی)