دیا ہے اور اس تصرف کے لئے کوئی عذر بھی پیش نہیں کیا گیا۔ یہ امر بھی دلچسپ ہے کہ الہامی عبارت کو مکمل طور پر اپنی ذات سے وابستہ کرنے کے شوق میں مرزاقادیانی نے زوج مریم کا ترجمہ بھی ’’مریم کی بیوی‘‘ کر دیا ہے۔
محولہ بالا ترجمہ پیش کرنے کے بعد اور اسی کی بناء پر مرزاقادیانی اپنے مخالف علماء پر حجت قائم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان علماء کو کیوں کر زیب دیتا ہے کہ میری مخالفت کرتے ہیں۔ حالانکہ: ’’یہ وہ الہامات براہین ہیں جن کا مولوی محمد حسین بٹالوی نے ریویو لکھا تھا اور جن کو پنجاب اور ہندوستان کے تمام نامی علماء نے قبول کرلیا تھا اور ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ حالانکہ ان الہامات کے کئی مقامات میں اس خاکسار پر خداتعالیٰ کی طرف سے صلوٰۃ اور سلام ہے اور یہ الہامات اگر میری طرف سے اس موقع پر ظاہر ہوتے۔ جبکہ علماء مخالف ہوگئے تھے تو وہ لوگ ہزارہا اعتراض کرتے۔ لیکن وہ ایسے موقع پر شائع کئے گئے۔ جبکہ یہ علماء میرے موافق تھے…… اور سوچنے سے ظاہر ہوگا کہ میرے دعویٰ مسیح ہونے کی بنیاد انہی الہامات سے پڑی ہے…… اگر علماء کو خبر ہوتی کہ ان الہامات سے تو اس شخص کا مسیح ہونا ثابت ہوتا ہے تو وہ کبھی ان کو قبول نہ کرتے۔ یہ خدا کی قدرت ہے کہ انہوں نے قبول کر لیا اور اس پیچ میں پھنس گئے۔‘‘
(اربعین نمبر۲ص۲۱، خزائن ج۱۷ص۳۶۸،۳۶۹)
یہاں چند امور قابل غور ہیں:
۱… براہین احمدیہ میں مرزاقادیانی نے مذکورہ الہامات کے ساتھ اس امر کی تصریح کر دی تھی کہ ان میں مندرجہ تعریفی کلمات فی الحقیقت رسول کریم کی ذات کے متعلق ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں: ’’اور ان کلمات کا حاصل مطلب تلطفات اور برکات الٰہیہ ہیں۔ جو حضرت خیرالرسل کی متابعت کی برکت سے ہر ایک کامل مؤمن کے شامل حال ہوجاتی ہے اور حقیقی طور پر مصداق ان سب عنایات کا آنحضرتﷺ ہیں اور دوسرے سب طفیلی ہیں اور اس بات کو ہر جگہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر ایک مدح وثناء جو کسی مؤمن کی الہامات میں کی جائے۔ وہ حقیقی طور پر آنحضرتﷺ کی مدح ہوتی ہے۔‘‘(براہین ص۴۸۹،۴۸۸حاشیہ درحاشیہ، خزائن ج۱ص۵۸۱،۵۸۰)
۲… براہین احمدیہ کی اشاعت کے وقت اور اس کے کئی سال بعد تک مرزاقادیانی نے اپنی نسبت مجدد، مسیح یا مہدی ہونے کا کوئی دعویٰ نہیں کیا تھا۔ بلکہ دوسرے مسلمانوں کی طرح مسیح کے جسمانی نزول کے قائل اور منتظر تھے۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔ ’’اور جس غلبۂ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیاگیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا اور جب حضرت