یہ حالات تھے کہ جب مرزاغلام احمد قادیانی نے مسیح موعود اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور اپنے دعویٰ کی بنیاد حدیثوں میں لکھی ہوئی۔ رسول کریمﷺ کی پیش گوئیوں پر رکھی۔ یہ دور معجزات کا نہیں۔ لیکن مرزاقادیانی کے ایک اعجاز کا میں قائل ہوں کہ انہوں نے حدیث کی کتب کے کونوں کھدروں سے بھولی بسری روایات نکالیں اور اپنی مسیحیت کے زور قلم سے ایک مردہ مسئلے میں جان ڈال کر اسے ایک جیتی جاگتی تصویر کی شکل میں قوم کے سامنے لاکھڑا کیا۔
احادیث کے اس چیستان کو معقول صورت دینے اور اپنے آپ کو اس کا مصداق ثابت کرنے کے لئے مرزاقادیانی نے جو عمل کیا۔ تاویل اس کے لئے مناسب لفظ نہیں ہے۔ کوئی دیگر مؤزؤں لفظ نہ ہونے کی وجہ سے یہ لفظ استعمال کیا جارہا ہے۔ وگرنہ تاویل کے لئے بھی کوئی قاعدہ، کوئی حد اور کوئی قرینہ ہونا چاہئے۔ لیکن مرزاقادیانی کے متعلق یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے مصمم ارادہ کرلیا تھا کہ اپنے حالات کو زیر بحث احادیث کے مطابق ضرور ثابت کریںگے۔ خواہ عبارت کا سیاق وسباق، صرف ونحو کے قواعد، عربی زبان کی لغت، تاریخ، جغرافیہ، ریاضی، قیاس اور قرینہ اس کی اجازت دیں یا نہ دیں اور ظاہر ہے کہ ان قیود سے آزاد ہو کر جس چیز سے جو چیز آپ کی مرضی ہو ثابت کر سکتے ہیں۔
جیسا کہ میں اس کتاب کے مقدمہ میں لکھ چکا ہوں میں نے حال ہی میں یہ پیش گوئیاں اور ان کی تاویلات کسی قدر تفصیل سے پڑھی ہیں اور میں اپنی ذاتی واقفیت کی بناء پر یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ احمدیوں کے نوجوان طبقہ میں سے بہت کم لوگوں نے مرزاقادیانی کی کتب کا وہ حصہ پڑھا ہے۔ جس میں کہ ان احادیث کی تشریح درج ہے۔ حیرت ان بزرگوں پر ہے کہ جن کے سامنے یہ تاویلیں پیش کی گئیں اور انہوں نے مان لیں اور پھر حیرت خود مرزاقادیانی کی جرأت اور خود اعتمادی پر ہے۔ جس کی مدد سے انہوں نے اس بارے میں اپنی بات ایسے وثوق اور تحدی سے پیش کی کہ گویا یہ ایسا اظہر من الشمس امر ہے کہ اس کے ماننے کے سوا چارہ ہی نہیں۔
اس صورتحال کی ذمہ داری بہت حد تک مولویوں پر ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو مذہبی معاملات میں آزادیٔ فکر سے اس حد تک محروم کردیا تھا کہ کسی کو جرأت نہ ہوتی تھی کہ کھلم کھلا دجال اور ظہور مسیح کی پیش گوئیوں سے ہی انکار کر دے۔ اس سے مرزاقادیانی کا کام سہل ہوگیا۔ انہوں نے اوّل ان احادیث کے ظاہری معانی مسلمانوں کے سامنے رکھے اور ان کی بعید از قیاس اور خلاف عقل تفصیلات کو ایک ایک کر کے پیش کیا اور ان سے تضحیک اور استہزاء کیا۔ اس سے مقصد یہ