نے ہمیشہ اعتقاداً ان روایات کو درست مانا ہے۔ لیکن عقیدہ کے مدارج ہیں۔ جس عقیدے کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہ ہو وہ خواہ کتنا ہی خلاف عقل اور علمی لحاظ سے بے بنیاد ہو۔ اس پر قائم رہنا آسان ہوتا ہے۔ اس لئے اس بارے میں عوام یا علماء کا ’’اجماع‘‘ ان احادیث کے درست ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
ہمارا مؤقف یہ ہے کہ دجال اور مسیح کے متعلق تمام روایات ضعیف اور ناقابل قبول ہیں۔ بلکہ ہم ان روایات کے موضوع ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کے متعلق بحث آئندہ ابواب میں آئے گی۔
لیکن اگر احادیث کی کتاب الفتن میں مذکور روایات درست ہوں تو ان کا کوئی حصہ بھی مرزاقادیانی اور ان کے دور کے حالات پر صادق نہیں آتا۔ خود مرزاقادیانی کو بھی یہ تسلیم ہے کہ احادیث کے ظاہری معانی کے لحاظ سے وہ اپنے دعاوی کو درست ثابت نہیں کر سکتے۔ لیکن انہوں نے تمام الفاظ کو تاویل کے ذریعے اپنے حالات کے مطابق بنانے کی کوشش کی ہے اور احمدیہ جماعت کا دعویٰ ہے کہ ایسا کرنے میں مرزاقادیانی حق بجانب تھے۔ ہمیں اس کتاب کے ایک باب میں معاملہ کے اس پہلو پر بھی کچھ کہنا ہوگا۔
ان سب مباحث کو سمجھنے اور درست فیصلے تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ اوّل زیر بحث احادیث کا اصل مضمون معلوم ہو۔ ہم باور کرتے ہیں کہ قارئین میں سے بہت کم اس سے واقف ہیں۔ اس لئے سب سے پہلے ہم اپنی بحث کے متن کے طور پر متعلقہ احادیث کا ایک ملخص لکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ملخص احادیث کی مستند کتب سے مرتب کیاگیا ہے۔ درمیانی راویوں کے نام چھوڑدئیے گئے ہیں۔ کیونکہ یہ تفاصیل ہمارے مقصد سے غیر متعلق ہیں۔ گوہمارا براہ راست تعلق صرف مسیح کے نزول اور دجال کے خروج کے موضوع سے ہے۔ لیکن احادیث کی رو سے مسیح کے زمانے کا تعین اس طرح کیاگیا ہے کہ یہ قیامت سے معاً پہلے ہوگا۔ اس لئے پہلے قیامت کے قیام کے وقت اور اس کے حالات کی چند احادیث پیش کی جاتی ہیں۔
دجال کے خروج کا زمانہ
’’معاذ بن جبل کہتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا ہے۔ بیت المقدس کی آبادی جب کمال کو پہنچ جائے گی تو وہ مدینہ کی خرابی اور تباہی کا باعث ہوگی اور مدینہ کی خرابی فتنہ اور جنگ کے وقوع میں آنے کا سبب ہوگی اور فتنہ کا ظہور اور جنگ عظیم کا وقوع قسطنطنیہ کی فتح کا سبب ہوگا اور