اوّل… جب حضورﷺ کی توجہ سے نبی پیدا ہوسکتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ آپؐ کے صحابہ کرامؓ میں سے کوئی شخص مثلاً ابوبکرؓ، عمرؓ، علیؓ، ابن عوفؓ، ابن عباسؓ، ابن مسعودؓ منصب نبوت پر فائز نہ ہو سکا۔ یہ حضرات اطاعت ومتابعت کے اس مقام اعلیٰ پر فائز تھے کہ بقول حضورﷺ ’’ان اصحابی کالنجوم بایہم اقتدیتم اہتدیتم‘‘ {میرے صحابہؓ روشن ستارے ہیں۔ تم جس کی بھی پیروی کروگے منزل کو پاؤ گے۔}
یہ حضرات اس درجہ کے عابد تھے کہ نماز میں کھڑے کھڑے ان کے پاؤں سوج جاتے تھے۔ اس بلا کے فدا کار تھے کہ جب ابروئے رسالت کا اشارہ پاتے تھے تو گھر میں صرف خدا ورسول کا نام چھوڑ آتے تھے۔ اس غضب کے مجاہد تھے کہ ان کی شمشیر خاراشگاف سے ہفت اقلیم کی طاغوتی طاقتیں لرزہ براندام تھیں۔ اس کمال کے عادل تھے کہ جب خیبر کے یہودیوں نے ایک صحابیؓ کو سیم وزر کی رشوت دے کر کوئی بے انصافی کرانا چاہی اور اس نے انکار کردیا تو اکابر خیبر بول اٹھے۔ ’’خدا کی قسم ارض وسماء اسی انصاف کے بل پر قائم ہیں۔‘‘
ان حضرات کی استقامت، تقویٰ، اطاعت رسول، اتفاق، ایثار، جانبازی اور عبادت گذاری پہ بیسیوں آیات شاہد ہیں۔ صرف ایک ملاحظہ ہو۔ ’’محمد رسول اﷲ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینہم۰ تراہم رکعا سجدا یبتغون فضلاً من اﷲ ورضوانا۰ سیماہم فی وجوہہم من اثر السجود ذالک مثلہم فی التوراۃ ومثلہم فی الانجیل کزرع… واجرًا عظیماً (الفتح:۲۹)‘‘ {محمدؐ اﷲ کے رسول ہیں۔ ان کے ساتھی کفار کے مقابلہ میں سخت اور آپس میں نرم ہیں۔ تم انہیں عموماً رکوع وسجود کی حالت میں خدائی فضل وکرم کا طالب پاؤگے۔ عبادت کی وجہ سے ان کے چہرے روشن ہیں۔ ان کے حالات تورات وانجیل میں بھی مرقوم ہیں۔ ان کی حالت اس شاخ کی سی ہے جو محکم واستوار بنتے بنتے ایک مضبوط تنہ بن جائے۔ کفار انہیں دیکھ کر آتش بغض ورقابت میں جلتے ہیں۔ اﷲ نے ان سے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کررکھا ہے۔}
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن لوگوں کا مداح خود رب العرش تھا اور جن کی اطاعت وفداکاری کی داستانوں سے ابھی تک ارض وسما گونج رہے ہیں۔ ان میں سے کیوں کوئی صحابی منصب نبوت پہ فائز نہیں ہوا؟