سکے۔ لیکن مرزاقادیانی کی تحریرات میں نہ کوئی فلسفہ ہے اور نہ انسان جدید کے لئے کوئی پیغام۔ آپ کی بہتّر(۷۲) تصانیف میں:
۱… وفات مسیح پہ بحث ہے۔
۲… اپنی نبوت پہ دلائل ہیں۔
۳… الہامات کا ذکر ہے
۴… آتھم اور محمدی بیگم کا جھگڑا ہے
۵… نشانات کا تذکرہ ہے۔
اور انہی مضامین کا باربار اعادہ ہے۔ آپ پر ’’بیس اجزائ‘‘ الہامات بھی نازل ہوئے تھے۔ لیکن ان میں کوئی پیغام موجود نہیں۔ صرف مسیح موعود کے مناقب ہیں وبس۔ اس کائنات میں بقائے اصلح کا آئین نہایت باقاعدگی سے کارفرما ہے۔ یہاں وہی فلسفہ زندہ رہ سکتا ہے جو دوسرے فلسفوں سے زیادہ طاقتور اور ابن آدم کے لئے زیادہ مفید ہو۔ ایک وقت تھا کہ ابن العربی، غزالی، اور ابن الرشید کا فلسفہ دل ودماغ پہ قابض تھا۔ وہ زمانہ گذر چکا۔ اگر آج ابن الرشید پھر پیدا ہو جائے اور چلا چلا کر اپنا فلسفہ پیش کرے تو امید نہیں کہ ایک کان بھی اس کی طرف متوجہ ہو۔ بحر زندگی میں اذکار نو کی لہریں ہر دم اٹھتی رہتی ہیں۔ جس طرح مظاہر کو نی میں زندگی، طفولیت وشباب کی منازل طے کرنے کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح افکار بھی کچھ مدت تک بہار شباب دکھانے کے بعد مر جاتے ہیں اور نئے افکار ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔ آج تصوف کا دور نہیں۔ مناظروں کا زمانہ نہیں۔ مذہبی فرقہ بازی کا عہد گذر چکا اور کلام واعتزال کے چرچے ختم ہو گئے۔ آج اگر کوئی شخص ان لاشوں میں پھر جان ڈالنا چاہے تو کامیاب نہیں ہوگا۔ مرزاقادیانی کا تمام زور قلم یا تو اثبات نبوت پہ صرف ہوا۔ یا دیگر مذاہب کی تردید پر اور یا ایک ایسے اسلام کی ترویج میں۔ جس پر تصوف وخانقاہیت کا رنگ غالب تھا۔ ظاہر ہے کہ اس متاع کے خریدار آج تقریباً نایاب ہو چکے ہیں۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ احمدیت میں نہ وہ جاذبیت موجود ہے جو دل ودماغ پہ قابض ہوسکے۔ نہ وہ توانائی جو غیر اسلامی افکار کو شکست دے سکے۔ نہ وہ حرارت جو عروق مردہ میں خون حیات دوڑا سکے۔ نہ وہ قوت جو حمام وکبوتر کو شاہین بناسکے اور نہ وہ ہمت جو داراوقیصر کو دعوت مبارزہ دے سکے۔
جرمنی کے نازیوں کا امتیازی وصف ایک عظیم ترین قوم بننا تھا۔ لینن کے پیرو خونی انقلاب بپا کرنے پہ ادھار کھائے ہوئے تھے اور خاکساروں کا مقصد نظام کہن کو الٹنا تھا۔ یہ تمام