مرزاقادیانی کی کتابوں میں صرف دو ایسے واقعات ملتے ہیں۔ جو دعا کے سلسلہ میں معرض بحث بن سکتے ہیں۔ ایک کا تعلق مولانا ثناء اﷲ امرتسری سے ہے اور دوسرے کا ڈاکٹر عبدالحکیم سے۔ مولوی ثناء اﷲ مرزاقادیانی کے سرگرم مخالفین میں سے تھے اور ڈاکٹر صاحب مدتوں مرزاقادیانی کے حلقہ ارادت سے وابستہ رہے اور آخر میں منحرف ہوگئے۔
مولوی ثناء اﷲ
مرزاقادیانی نے بشارات فہم قرآن وقبول دعا کے سلسلے میں علماء کو چیلنج دیا تھا کہ وہ آئیں اور مقابلہ کریں اس چیلنج کو وہ باربار دہراتے رہے۔ یہاں تک کہ ۱۹۰۲ء میں مولوی ثناء اﷲ مقابلہ میں اتر آئے۔ ممکن ہے کہ اس عرصہ میں کوئی اور صاحب بھی مدمقابل ہوئے ہوں۔ لیکن قلت معلومات کی وجہ سے ہم کوئی اور مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ مولوی صاحب نے یہ چیلنج کس طرح قبول کیا۔ اس کی تفصیل خود مرزاقادیانی سے سنئے۔ ’’میں نے سنا ہے بلکہ مولوی ثناء اﷲ امرتسری کی دستخطی تحریر میں نے دیکھی ہے جس میں وہ درخواست کرتا ہے کہ میں (ثناء اﷲ) اس طور کے فیصلے کے لئے بدل خواہشمند ہوں کہ فریقین یعنی میں اور وہ یہ دعاء کریں کہ جو شخص ہم دونوں میں سے جھوٹا ہے وہ سچے کی زندگی میں ہی مرجائے… پس ہمیں کوئی انکار نہیں کہ وہ ایسا چیلنج دیں۔ بلکہ ہماری طرف سے ان کو اجازت ہے۔ کیونکہ ان کا چیلنج ہی فیصلہ کے لئے کافی ہے۔ مگر شرط یہ ہوگی کہ کوئی موت قتل کے رو سے واقع نہ ہو۔ بلکہ محض بیماری کے ذریعہ سے ہو۔ مثلاً طاعون سے یا ہیضہ سے یا اور کسی بیماری سے یا ایسی کارروائی حکام کے لئے تشویش کا موجب نہ ٹھہرے اور ہم یہ بھی دعاء کرتے رہیںگے کہ ایسی موتوں سے فریقین محفوظ رہیں۔ صرف وہ موت کاذب کو آوے جو بیماری کی موت ہوتی ہے۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۱۴،۱۵، خزائن ج۱۹ ص۱۲۱،۱۲۲)
چیلنج ہوگیا۔مرزاقادیانی نے موت کی صورت متعین فرمادی۔ ساتھ ہی ان الفاظ میں چیلنج کو منظور کر لیا۔ ’’ان کا چیلنج ہی فیصلہ کے لئے کافی ہے۔‘‘
پھر سلسلۂ دعاء کا بھی آغاز ہوگیا۔ ’’ہم دعاء کرتے رہیںگے… کہ وہ موت کاذب کو آوے جو بیماری کی موت ہوتی ہے۔‘‘
نیز یہ شرط عائد کر دی کہ چیلنج ایک پوسٹر کی صورت میں ہونا چاہئے۔ جس کے نیچے پچاس آدمیوں کے دستخط ہوں۔ آیا ایسا کوئی پوسٹر مولوی ثناء اﷲ کی طرف سے شائع ہوا تھا یا نہیں۔ ہمیں علم نہیں، صرف اتنا معلوم ہے کہ مرزاقادیانی نے مولوی صاحب کے اس ارادے ہی کو کافی سمجھا اور فرمایا۔ ’’مجھے کچھ ضرورت نہیں کہ میں انہیں مباہلہ کے لئے چیلنج کروں یا ان کے باالمقابل