حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
لیے اسے) دوتہ کرنے کی اجازت تھی اسے جب چار تہ کیا گیاحُضورﷺسو تو گئے لیکن ناراض ہوئے (کہ زیادہ آرام کی وجہ سے) نمازِ تہجد میں بیدار نہ ہو سکے ۔(46)یہ آپ ﷺکی عام عادت اور مجاہدہ تھا تاہم اپنی اُمّت کونرم گرم آرام دہ گدّوں سے نہ روکا،بلکہ آرام دہ گدوں پہ ذکر کرنے والوں کو پسند فرمایا (47) اس لیے کہ ایسے ذاکرین دل میں شمعِ محبت منوّررکھنے کے لیے ذکر کرتے کرتے سو جاتے ہیں ؎ عشق میں دل بہت ہے بے آرام چین دیوے تو کوئی خواب کرے آپ ﷺنے نرم و آرام دہ تکیوں سے منع نہیں فرمایا ، ایک عورت نے اُون سے بھری رضائی یا گدہ پیش کیاتوحضور ﷺنے پسند نہیں فرمایا(48)اور نہ اس صحابیہ رضی اللہ عنہاکو منع فرمایا،آپ ﷺکے صحابہ رضی اللہ عنہمسمجھتے تھے کہ روئی وغیرہ کے گدّوں کی ممانعت نہیں ۔تکیہ:جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی ،چمڑے کا بنا ہوا تھا ، (49)آپ ﷺزمین پہ بیٹھتے یا لیٹتے چار پائی پہ بیٹھتے یا آرام کرتے بہرحال تکیہ استعمال کر لیتے تھے ،اس لیے صرف زمین پہ لیٹنے اور کھجور کی چار پائی یا کھجور کی چھال والے بستر کو ہی ’’بسترِ محمّدی ‘‘کہنا یااس کے سنّت ہونے پراصرار کرنا، اس کے خلاف کرنے اور موجودہ دور کے آرام دہ بستر کو خلافِ سنّت سمجھنازیادتی ہے ۔آپ ﷺکی موجودگی اور علم میں یہ پایا گیا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اُون یا روئی وغیرہ کا استعمال کر لیتے ،آپ ﷺمنع نہ کرتے،یہ ایسے ہی ہے کہ آپ ﷺبعض اوقات جو کی روٹی اور کھجور سے گذارہ فرماتے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے گھروں میں دُودھ پنیر اور گند م کی روٹی ہوتی تھی ،آپ ﷺکی یہ اجازت سُنّت کا درجہ رکھتی ہے ، اس اقرار کے ساتھ کہ حضور سیّد نا محمد کریم ﷺنے خود تو بہت ہی کم آرام والی اشیا ء استعمال کیں ،فکرِ آخرت کو اصل اور دنیا کے قیام کو عارضی سمجھا ،یہ ہی تصوّر اپنی اُمّت کو دیا کہ دنیا آرام رساں ،بیش قیمت اور فینسی گدّوں اور بیڈوں کی نہیں ،آخرت کی تیاری کے لیے معمول کے مطابق اشیائِ ضرورت کی استعمال میں لاکر عبادت کی جگہ ہے۔ ؎ بہکی ہوئی طلب کی سیہ کاریاں نہ دیکھ سنبھلی ہوئی وفا کی اطاعت قُبول کر