حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
أَنزَلْنَا عَلَیْْکُمْ لِبَاساً یُوَارِیْ سَوْء َاتِکُمْ وَرِیْشاً وَلِبَاسُ التَّقْوَیَ ذَلِکَ خَیْْرٌ ذَلِکَ مِنْ آیَاتِ اللّہِ لَعَلَّہُمْ یَذَّکَّرُونَ‘‘(3)(اے اولاد آدم کی !ہم نے اتاری تم پر پوشاک (اور اتارے آرائش کے کپڑے اورایسا لباس)جو تمہارے ستر کو چھپائے اور آرائش (کاذریعہ بنے)اور لباس پرہیز گاری کا ،وہ سب سے بہتر ہے ،یہ نشانیاں ہیں ،اللہ کی قدرت کی تاکہ وہ لوگ غور کریں )۔آیت کی رُوسے ملبوساتِ انسان اللہ کی ایک بلند پایہ ،حُسن آفریں نہایت نفیس اور اعلیٰ نشانی ہے ، اسی فطری علامتِ انسانی کو اس وقت واپس لے لیا گیا جب حضرت آدم سے خطا ہوئی ۔بقولِ غالب ؎ ہوں زخود رفتہ بیدائے خیال بھول جانا ہے ،کہانی میری اب دیکھنایہ ہے کہ ہمارے خالق و مالک کا یہ انعام ہم نے کھودیا ہے یااس کو ان قرآنی وایمانی صفات کے ساتھ محفوظ رکھا ہوا ہے جن سے مزین کرکے اسے انسان کے لیے تحفہ کے طور پر پیش کیا گیا !قرآنِ کریم کی اس آیت میں لباس کے دو بنیادی مقاصد (خوبصورتی اور ستر کا تحفّظ)قرار دیے گئے ہیں (۱)یعنی لباس شرمگاہ کو چھپائے (۲)اور خوبصورت و جاذبِ نظرہو ،عربی میں سترکو’’العَورَۃ‘‘کہاجاتاہے ۔عربی لفظ ’’عورت ‘‘ہر اس عُضو پربھی بولا جاتاہے جس کا کھولنا دوسروں کے سامنے حرام قرار دیا گیا ہو ،چنانچہ لباس ایسا ہونا چاہیے جو ان اعضاء کو چھپا سکے جن کا دیکھنا عقلاًو شرعاًناپسندیدہ ہے ۔علامہ آلوسی رحمۃاللہ علیہ لکتے ہیں :وَلِھٰذاسُمِّی النِّسٓاء عَورَۃ۔(4)اور اسی وجہ سے عورت کو عورت کہاجاتاہے کہ وہ چھپانے کی چیز ہے ،ظاہر کرنے کی نہیں ۔نبی اکرم ﷺلباس کے ان دونوں مقاصد کے مطابق اعلانِ نُبّوت سے پہلے اور اس کے بعد اپنے ملبوسات تیار کرواتے رہے ،آپ ﷺکی عمر اس وقت ابھی بارہ سال تھی جب آپ ﷺنے تعمیرِ کعبہ میں حصّہ لیا ، پتھر اٹھانے کے لیے آپ ﷺکو کہا گیا کہ دیگر بچّوں کی طرح حضرت محمّد ﷺبھی تہ بندا تار کر کاندھے پہ رکھیں اور پتھر اُٹھائیں تا کہ پتھر کی تکلیف سے بچ جائیں ۔سیدِّدوعالم ﷺنے ایسا نہیں کیا اور فرمایا:ایسا کروں تو میں سمجھدار شمار نہیں کیا جائوں گا(5)اس کے ساتھ دوسرا مقصد لباس کا یہ ہے کہ وہ اچھا لگے ، نبیٔ رحمت ﷺکی مبارک زندگی میں ایسے موڑ بھی آئے جب آپ ﷺکے مبارک گھر میں دو چادروں کے سوا کچھ نہ تھا اورآپ ﷺان دوبے سلی چادروں میں گذارہ کرتے تھے (6)اور کبھی ایسا بھی دیکھا گیا کہ گھر یلوحالات اچھّے تھے تو آپ ﷺنے قیمتی لباس بھی زیبِ تن فرمایا،اس طرح آنحضور ﷺنے اپنے آفاق گیر نظریات کی عملی دعوت دی کہ زندگی کی آب وتاب،گل وسنبل ،عنبر و ریحان ،لباس و طعام میں سے جومل جائے ،اسے دیدہ زیبی سے استعمال کرواوراپنے مالک وخالق کا شکر کرو! ؎