حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:اے ابنِ رواحہ !تم حضور ﷺکے سامنے بیت بازی کرتے ہو؟حضور ﷺنے فرمایا:عمر !ان کو پڑھنے دو!ان کے یہ الفاظ تیروں کی طرح کفار پر اثر انداز ہو تے ہیں (55) (۳)اور یہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ آگئے ،آپ ﷺنے ان کی صلاحیتوں اور ان کے رُجحان کے مطابق عسکری شاعری کے لیے منتخب فرمالیاوہ اپنے الفاظ سے تیرونشترکا کام لیتے اور مدِّ مقابل کے دلوں کو گھائل اور جذبات کو ٹھنڈا کر دیتے ہیں ،بتوں کے پجاریوں کے کانوں سے گذر کر جب ان کا کلام دل تک پہنچتا تو ان کے دل کا نپ اٹھتے اور ہمتیں پست ہو جاتی ہیں ۔(56) ؎ چشمِ مظلوم کے اشک پونچھے گئے آبرو بے کسوں کی بڑھائی گئی جبر کے بتکدے منہدم ہوگئے جو اخوت کی بنیاد ڈالی گئی حضرت حسّان بن ثابت رضی اللہ عنہ مسلمان ہونے سے پہلے شاعر تھے ،ان کے کلام کا موضو ع ملکی و ملّی ماحول سے متاثّر تھا جیسے ہی ایمان لائے تخیّلات کے دھارے بدلے ان کے زبان و علم سے تو حید و رسالت کی دربانی شروع ہوگئی حضرت کعب بن زبیر رضی اللہ عنہ نے نعتیہ اشعار پڑھے تو ان کو دربار رسالت سے ایک چادر عنایت ہوئی(57) حضرت انجشہ رضی اللہ عنہ اسفار میں آپ ﷺکے قافلوں کے ساتھ ایسی حدی خوانی کرتے کہ مسافر اور ان کی سواریاں بے تکان چلتے اور تھکتے بہت کم تھے ان کو حَادی رسول اللہ ﷺلقب سے نوازا گیا ۔ (58)ان حضرات کے لیے یہ فرمانِ رسالت کتنا حوصلہ افزاء تھا ، آپ ﷺنے فرمایا : مؤمن اپنی زبان اور تلوار دونوں سے جہاد کرتاہے ۔(59)حضرت کعب بن زبیر رضی اللہ عنہ عرب کے ذی وقار شعراء میں سے تھے اسلام اور مسلمانوں پر وار کرتے تھے ،جیسے ہی مسلمان ہوئے ، ادبی صلاحیتوں کا محور اسلام اور ذاتِ رسالت ﷺبن گئے ،اب حضرت کعب رضی اللہ عنہ کے مُنہ سے الفاظ کی شکل میں وہ پھول جھڑتے تھے جن کی خوشبو سے عہد نبوی ﷺمیں جو فضا معطر ہوئی شاید میر تقی میر کا یہ کلام تصویر کشی کرے ؎ نہ دیکھو کبھی موتیوں کی لڑی جو دیکھو میری گفتگو کی طرف