حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
نبی رحمت ﷺنے اس آیت کی تفسیر فرمائی:’’ تَزْیِیْنُ الْبَاطِل بَالْاَلْسِنَۃِ‘‘(50)اس آیت میں باطل یعنی بے دینوں کی اپنی لَسَّانیت سے (کسی بے دینی کی)بات کو مُزَیّن کرنے کی مذمّت بیان کی گئی ہے ۔ آپ ﷺنے اپنے زیر تربیت شُعراء کی اصلاح فرمائی ،جب کلا م ِ الہٰی میں شُعراء کی مذمت بیان کی گئی تو اللہ تعالیٰ نے بطورِ خاص ایک آیت نازل کر کے ان نظم نگاروں کو مستثنٰی کر دیا جو تلمیذانِ رسو ل ﷺمیں شامل تھے ۔(51) ؎ صبحِ رفعت کی تنویر کے فیض سے شامِ پستی کی تحقیر بدلی گئی آپﷺآئے اِ ک انقلاب آگیا آپ ؐآئے تو تقدیر بدلی گئی جب آپ ﷺنے اِ نسانیت کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا نثرونظم میں اظہارِ خیال کا زمانہ تھا اس وقت تک کے عرب اپنے علاوہ اقوام کو عجم (گونگے ) ہونے کا خطاب دے چکے تھے ۔اب ضرورت تھی کہ انسانیت کے شعری ذوق کو نہ صرف یہ کہ بر قرار رکھا جائے بلکہ اس کی اصلاحی سر پر ستی کی جائے اس لیے جب شُعراء و خُطباء کی ایک بڑی کھیپ مسلمان ہوئی ، تو ان کی قومی و مِلّی خدمات کے لیے دائرے مُقّرر فرما دیے تا کہ ہر شاعر اپنی خداد اد صلاحیتوں سے ملک وملّت کے کام آئے ،مجلسِ نبوی ﷺکے یہ چند مناظر قابلِ رشک ہیں :(۱) مدینہ کے یہ سردار حضرت حَسَّان بن ثابت رضی اللہ عنہ اپنا نعتیہ کلام پڑھتے ہیں ،حضور ﷺخود ان کے لیے ممبر مسجدِ نبوی ؐشریف میں رکھواتے ہیں ،ان کو فرمایا:تم کافروں کی ہجو کیا کرو!وہ اشعار پڑھتے اور حضور ﷺان کو دعائیں دے کر داد دیا کرتے تھے ،فرمایا:پڑھو! جبریل تمہارے ساتھ ہیں ،تمہارے اشعار تیروں سے زیادہ تیز ہیں ۔(52) ؎ فاقہ مستوں کے ہاتھوں بسی جو زمیں ،فقر و شاہی کی تفسیر بدلی گئی فرشتے جو آئے مدد کے لیے تو شاہ بھی ہو ئے زیرِ نگیں رحمتِ دوعالم ﷺکی مبارک دعائوں اور توجّہ خاص سے یہ شُعراء اِس درجے پہ پہنچ جاتے تھے کہ ان کے کلام پہ یہ قولِ رسول ﷺصادق آیا تھا :’’انَّ مِنَ الشِّعْرحِکْماً‘‘ (53)بعض شعر حکمت (و دانائی سے معمور )ہوتے ہیں ۔ (۲)یہ ایک اور ذی وقار صاحبِ کلام حاضر خدمت ہوتے ہیں ،عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نام ہے ۔ان کے لیے میدانِ سخن کا انتخاب ہو تاہے ۔کہ وہ کافروں کو(ان کی بداعمالیوں ،بُت پَرستی ،بے شرمی ،ہٹ دھرمی اور جہالت پر ) عاردلائیں ،جب وہ اپنا کلام پیش کرتے ہیں تو حضرت محمّد ﷺفرماتے ہیں :’’ بہت خوب پڑھا ‘‘(54)حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بن رواحہ ایک دن دربار رسالت میں اپنے مجوزہ موضوع پر مُسَجّع کلام پیش کر رہے تھے