حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
لکھا گیا ہے یہاں صرف اس بیان پر اکتفاء کیا جارہا ہے کہ زبان و بیان کا وہ ادب جو نبی محترم علیہ السّلام اپنے متّبعین میں دیکھنا چاہتے تھے وہ ہر قسم کی زمانی آلائشوں سے پاک تھا وہ نہ کسی خاص زمانے اور علاقے اور مخصوص زبان کا محتاج ہے اور نہ کسی قوم اورگروہ کے ساتھ خاص ہے بلکہ وہ ہر قوم ،ہر زمانے اور ہر علاقے کی ضرورت ہے اس لیے سیدنا محمد ﷺرحمۃللّعَالمین تھے وہ پوری دنیا کے ہر انسان کے نبی تھے اس لیے آپ ﷺکے اُصولِ گفتار و آدابِ اظہارِ خیال میں ایسی جا معیت ہے جو ہر قوم اور ملک و نسل کے لیے کافی ہے ۔ ؎ یہ اور بات انوکھی سی پیاس رہنے لگی میری زباں پہ اس کی مٹھاس رہنے لگی ٭اگر ادب اس وصفِ کلامی کا نام ہے کہ مخاطب کے دل میں بات اثر کرے تو نبی رحمت ﷺکے کلام کی اثر پذیری کا زمانہ معترف ہے، آپ ﷺکے ارشادات کے دیگر زبانوں میں ترجمے بھی اپنی تاثیر پوری رکھتے ہیں اور اگر اس کی تعریف یہ ہے کہ کلام ِ انسانی نحوی وصرفی اور رائج الوقت حُسنِ تکلّم کی خوبیوں سے مالا مال ہو تو نبی رحمت ﷺکا کلام اس معیار پر ایسا پورا اترا کہ اسے ہی معیاربنا لیا گیا ؎ پرندے میرے بدن دیکھتے تھے حسرت سے میں اڑرہا تھا خلا میں عجیب شان سے الغرض: فنِ ادب کی کوئی بھی صحیح تعریف کی جائے اس کی مثالیں اور اس تعریف کا حقیقی مصداق اگر کوئی انداز ِگفتگو ہے تو وہ صرف حضرت محمد عربی النَّبِیُّ الْاُمیّ کے ار شادات ہیں ،ا س لیے کہ آپ ﷺوحیٔ الٰہی کے زیرِہدایات گفتگوفرماتے تھے۔ جس ادب کی پاسبانی آسمان سے ہو۔۔۔: آپ ﷺنے گفتگو میں کس کس طرح نقائص کی نشاندہی فرمائی ؟اس سوال کے جواب کے لیے دفتر چاہیے ۔یہاں چند مثالیں دی جارہی ہیں (۱)عرب انگور کو ’’کَرَم‘‘کہتے تھے ۔ یعنی اس سے شراب بنتی ہے جسے پی کر انسان سخی ہو جاتاہے ،آپ نے فر مایا :سخی تو مؤمن کا دل ہو تا ہے ۔٭انگور کو ’’عِنَبْ‘‘ کہو جو اس کا نا م ہے (39)٭منافق کو ’’سَیّدُنَا‘‘(ہمارے سردار )نہ کہو!اگر وہ تمہارا سردار ہے تو تم نے اپنے رب کو ناراض کر لیا ۔(40) ؎ شریف و باوفا ہوجا زباں کا ایک جاہوجا منافق کی روش کو چھوڑ غلامِ مصطفٰے ہوجا ٭یہ نہ کہو’’جیسے اللہ چاہے اور فلاں چاہے ‘‘(کہنا ہو تو)یوں کہو’’اللہ چاہے اور پھر فلاں چاہے‘‘(41) ٭یہ نہ کہو’’اللہ پر سلام‘‘اس لیے کہ اللہ خود ’’الَسَّلَامُ‘‘ہے ۔(42)٭ شادی شدہ جوڑے کو کفار’’بالرَّفَائِ