حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
اک دل پتھر ہے اِک دل بن جائے موم آخر اتنا فرق کیوں آب وگل میں ہے ؟ اورممکن ہے اس کے فیضِ عام اور محبوبیتِ عامّہ کی بنا ء پر حکم ہوا کہ جاری اور جمع پانی میں پیشاب نہ کرو!(48)مدینہ کے باغوں میں درختوں کے سایوں سے گذرتا اور ان کی جڑوں تک پہنچتاپانی آپ ﷺکو بھلالگتاتھا ،وہ مدینہ کے باغوں میں جاتے او رمحظوظ ہوتے تھے ۔شاید قرآنِ کریم کی یہ آیات ان کی انہی عادات کا ایک رنگ پیش کرتی ہیں ،اللہ فرماتے ہیں :(ہم نے)اہلِ سباکے لیے دوباغ دیے ایک داہنی طرف اورایک باہنی طرف تھا ،(اور کہا:لو) اپنے پرور دگار کا رزق کھائو اور اس کا شکر ادا کرو (تمہارے رہنے کو سر سبزو شادابی اور پھل پھُولوں سے معمور )پاکیزہ شہر ہے اور (تم شکر گزاری سے کام لو تو ) رب بخشنے والاہے (جب انہوں نے ناشکری کی تو خُوشحالی بدحالی میں اور میووں کے باغ )جھائو اور تھوڑی سی بیریوں میں بدل گئے۔(49)پانی نعمت بھی ہے اور حُسنِ کائنات بھی،عشق ومحبّت ،ہجر وصال ،تازگی ،ترقی ،انسانی آبادی ،جانوروں کی آمد،پرندوں کانُزول ،سفر و سیلہ ء ظفر،اُمّید ،مخلوق کا وجود اورتمدّن ومعاشرت میں سے کون سامضمون ہے جو پانی کے تذکرے کے بغیر مکمّل ہوجائے ۔اللہ تعالیٰ نے تخلیقِ انسان سے لے کرقیام ِ قیامت کے جتنے اہم مضامین قرآن کی زینت بنائے ان میں پانی کو اہمیت دی اور اس کے کر دارسے اپنے پیغام میں رنگ بھر ا اور پھر انسانوں کو سنایا تا کہ وہ اس رنگیں تصویر کو بہر صورت دیکھیں ،جسے اللہ دکھانا چاہتے ہیں ،جب اللہ فرماتے ہیں :ہم نے ہر چیز کو پانی سے زندگی بخش رکھی ہے (50)تو غور وفکر اور تدبّر سے مشکل نہیں ہے کہ ہر مخلوق میں بالواسطہ یا بلا واسطہ پانی ہی کا مرکزی کردار ہے۔کائنات کا یہ کتنا بڑاحُسن ہے؟ اس کا اندازہ اس سے لگا لیاجائے کہ رُوئے زمین پہ انسانی آبادی کے لئے اللہ نے ایک حصّہ خشک رکھا ہے اور تین حصّے پانی ہے،جو پانی آسمان سے بھی برستاہے ،زمین نے اپنی گہرائیوں میں اسے وسیع جگہ دے کر انسان کے لیے جمع کیا ؎ فضا میں خالقِ ابرِبہار ہے پانی زمیں پہ رحمتِ پرور دگار ہے پانیملاحظہ : ارشادِرسول ﷺ(یعنی جس میں ،سبزے ،بہتے پانی ،پھل اور محبوب چہروں کو دیکھنے کا بیان ہے ،اس کے دوحصّے یعنی سبزے اور بہتے پانی کا ) ذکر ہو چکا ،اب اگلے صفحات میں حدیث کے دوسرے حصّے یعنی ’’محبو ب چہروں سے دل کی تسکین ‘‘کی وضاحت کی جاتی ہے ۔