حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذوق جمال |
|
آپ ﷺکے ساتھ کھانے میں شریک ہوگئے (14)اس واقعہ میں پرندے کے گوشت سے لذّتِ کام ودہن کی بات ہوئی اور اگلے دوواقعات میں عقائد کا حل ہوا ۔٭ کثیر احادیث جن میں پرندوں سے بدفالی کاذکر ہے :آپ ﷺنے فرمایا: ’’لاَطَیْرَۃ‘‘’ ’ پرندوں سے فال کی کوئی حیثیت نہیں ‘‘ (15)٭پرندے آپ ﷺکو کس قدر بھلے لگتے تھے (سُبْحَانَ اللہ)خُوب فرمایا:شہداء کی روحیں پرندوں کے قالب میں ڈال دی جاتی ہیں ، وہ پرندے جنت کے درختوں پہ بیٹھیں ،جہاں چاہیں ،ان کے لیے اشجار ِفردوس پر قندیلیں لٹکا دی گئیں ہیں (جب چاہیں ان میں راحت کے لیے آبیٹھیں )ان کے لیے یہ(جنّتی گھونسلے ہیں )جو سونے سے بنے ہیں ۔(16)٭حج سے مُتعلّقہ حدیثوں میں ’’ اَلْغُرَابُ‘‘(کوّے)کا اور ’’الحِدَاۃ‘‘(چیل)کاذکر آتاہے۔ (17)٭صحیح ابن حِبان میں باب ہے : ذکراباَ حَۃاَکْلِ المَرْئِ لُحُوْمَ الَطُّیُورِالَّتِی قَدْاصْطِیْدَتْ۔’’یعنی ان پرندوں کے گوشت کھانے کابیان جنھیں شکار کیا گیا ہو ،اس باب میں جہاں مختلف پرندوں کاتذکرہے وہاں ’’حَمامۃِ‘‘(کبوتر)کانام بھی آتاہے ،’’العَضْفورُ‘‘ (چڑیا)بھی مذکورہ ہے ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے مرنے والے بچّوں کو جنّت کی چڑیاسے تشبیہ دی (18)ایک سُرخ رنگ کی چڑیا کے بچّے صحابہ رضی اللہ عنہم نے پکڑے ،آپ ﷺنے اسے بچّوں کے لیے تڑپتے دیکھا تو فرمایا:کس نے اسے تکلیف دی ہے ؟اسے اس کے بچے واپس کرو !(19)(ان کا دل نہ دکھائو،یہ حُسنِ کائنات کا خوبصور ت حصّہ ہیں ) ؎ خوشبوئوں کا پتہ نہ رنگ جانتے ہیں پرندے پھولوں سے باتوں کا ڈھنگ جانتے ہیں نبی اکرم ﷺپھول کی طرح کھلے ہوئے رنگ اور گھنی داڑھی والے تھے (20)رحمتِ عالم ﷺکو پھولوں سے طبعی محبّت اس لیے بھی لازمی تھی کہ قرآنِ کریم اس طرف متوّجہ کرنے کے لیے کہتاہے ’’وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَ الرَّیْْحَانُ ‘‘(21)(اور (اللہ نے بنایا ) اناج جس کے ساتھ بھُس ہوتاہے اور خوشبو دار پھول) الغرض: سیّدنارسولِ اکرم ﷺانتہائی نفیس ذوق کی حامل شخصیت تھے ،وہ اپنے خالق و مالک کی صنعت و کاری گری کے دل کش ونظر افروز مناظر سے خو ش ہوتے اور اللہ کی تعریف کرتے ؎ گُلوں کے لب پہ تیرے ترانے کلی کے رُخ پرجمال تیرا جہاں کے خالق چمن کے مالک ہر سُو ہے پھیلا کمال تیرا