کر سلف صالحین واکابر محدثین کے حلقۂ تحدیث کا نقشہ نظروں میںپھر جاتاتھا۔ نہایت سبک اور سہل الفاظ بامحاورہ اردو میں اس روانی سے تقریر فرماتے کہ معلوم ہوتا دریا امنڈا آرہا ہے۔ حضرت صرف شراح کی تعلیم کے احاطہ میں محصور نہ تھے بلکہ وہ مضامین عجیب انہیں شروح وحواشی کے مطالعہ سے آپ کے ذہن مصطفیٰ میں آتے تھے جو دید تھے نہ شنید۔ فقہاء وشراح کے مجمل دلائل کو اس شرح بسط سے بیان فرماتے کہ باید وشاید۔ وہ دقیق فرق اور وہ لطائف ورموز سناتے کہ طلبہ بے ساختہ سبحان اللہ کہہ اٹھتے حضرت مولانانے اپنی تقریر میں شروح احادیث کا عطر نکال کررکھ دیا ہے۔
حضرت کا طرز تحدیث اور جمع بین اقوال الفقہاء والاحادیث بالکل وہی تھا جو ہندوستان کے نامی گرامی علمی خاندان قطب عالم حضرت شاہ ولی اللہ صاحب اور حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب قدس سرہما کاتھا۔ درس وتدریس اور قراء ت وتحدیث کے لحاظ سے حضرت مولانا کی سند حدیث کا سلسلہ بھی دو طرح حضرت شاہ ولی اللہ صاحب قدس سرہ پر منتہی (۱)ہوتاہے۔ احادیث کے متعلق جو معنی یا تاویل تطبیق ،توجیہ وتحقیق حضرت مولانا نے بیان فرمائیں وہ ضبط کی گئی وہ خاص خاص امور اور چیدہ چیدہ ابحاث ضبط کئے گئے جن کی ضرورت محسوس ہوئی۔ سہل اور آسان مطالب کے ضبط کاخیال نہیں کیاگیا بدیں وجہ یہ تقریر نہایت مختصر ہے۔ چونکہ یہ مجموعہ ایک بے مثل اور مقدس محدث کے پاک منہ سے نکلے ہوئے مضامین اور ارشاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلقات ہیں اور ایک مجسمہ زہد وتقویٰ عالم ربانی کے جمع کردہ ہیں بنابریں بجنسہ بلا کسی تصرف وتغیر کے بغرض افادئہ عام اس کو طبع کرایا گیا ہے۔ اگر کسی جگہ کوئی غلطی سبقت قلم سے یا سہوا رہ گئی ہو تو اس کو مقرر یا ناقل کی طرف منسوب نہ کیاجائے بلکہ کتابت کی غلطی یا طبع کنندہ کے قصور علم پر محمول کیاجائے۔
گذارش والتماس: ہے کہ اس متبرک مجموعہ کو نہایت ادب وتعظیم کے ساتھ مطالعہ فرمایاجاوے۔ لاپرواہی اور بے قدری یا بدنیتی سے ہرگز مطالعہ نہ کیاجاوے۔
نیز ایسا غبی اور کم استعداد بھی اس کو نہ دیکھے کہ جس کو کتاب اور فن سے کچھ مناسبت ہی نہ ہو اور کچھ سمجھ نہ سکے۔
{وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی سیدالمرسلین وعلی آلہ واصحابہ اجمعین}
سیداختر حسین عفی عنہ
۱۲ محرم ۱۳۶۸ھ
_______________