سے کسی موقع پر متصل صفوف ہوکر شاہراہ سے گذر جاویں اور پھر بھی اقتداء درست رہے۔ اتحاد ہی کی رعایت سے کہتے ہیں کہ مقتدی بلاضرورت بالائے سقف نہ پڑھے ۔ الفاظ حدیث بظاہر جماعت کی خبر دیتے ہیں لیکن کوئی خاص تصریح و نص نہیں دوسرا احتمال بھی موجود ہے گو بعید ہو کہ آپ ﷺ نے نماز کا حکم فرمایا ہو اور خود آگے بڑھ گئے ہوں تاکہ آپ ﷺ کے ایماء وغیرہ کو دیکھ کر اسی طرح سب لوگ علیٰحدہ علیٰحدہ ادا کرلیں۔
باب اوّل مایحاسب
یا تو مطلب یہ ہے کہ اولیت حقیقہ صلٰوۃ کو ہے دوسری اشیاء مثلاً دماء وغیرہ کو بالاضافت اوّل فرمایا گیا ہے اور ایک تاویل یہ ہے من اول ما یحاسب مراد ہو سائر عملہ علیٰ ذلک یعنی تمام اعمال اسی طرح ہونگے کہ فرائض کا جبر ِنقصان نوافل سے ہوگا۔ یا یہ کہ جسکی نماز مقام حسا ب میں پوری اترگئی اسکے اور اعمال بھی کامل ہوتے چلے جاویں گے(اَلّٰھُمَّ ارزقنی النوافل) جو اس میں فائز و کامل رہا وہ آخر تک بامراد رہے گا۔
باب السنن المؤکدۃ
ظہر سے پہلے چار میں اختلاف ہے ۔ امام شافعی ؒ صاحب دو رکعتیں سنت بتلاتے ہیں اور حنفیہ چار دونوں قسم کی احادیث آتی ہیں۔ خود حضرت عائشہ ؓ بھی دونوں طرح کی روایت کرتی ہیں حنفیہ کہتے ہیں کہ دو رکعت آپ ﷺ صلٰوۃ بعد الزوال کے پڑھتے ہونگے۔یا احیاناً پڑھا ہوگا۔
باب رکعتی الفجر
سب سنن مؤکدہ سے افضل ومؤکد فجر کی ۔ اور اسکے بعد رکعات قبل الظہر ہیں۔ باقی سب کو برابر لکھتے ہیں۔ بعض روایت میں سنن فجر میں قُلْ یَا اورقُلْ ھُوَ اللّٰہ کے سوا اور آیات پڑھنا بھی ثابت ہے (مثل سورۃ توبہ کے اخیر کی چند آیتیں) آپ ﷺ اعلیٰ سِرّ سے پڑھتے ہونگے اس واسطے ابن عمر ؓ نے سن لیا بعض فقہاء کلام بعد طلوع الفجر کو مکروہ لکھتے ہیں ۔ کلام خیر اور ضروری کا مضائقہ نہیں۔ فضول کلام نہ چاہیے اضطجاع بعد رکعتی الفجر کو بعض نے مطلقًاسنت کہا ہے لیکن امام صاحب ؒ صرف انکے لئے مستحب وسنت کہتے ہیں جو رات کو جاگ کر درماندہ اور کسل مند ہوگئے ہوں تاکہ نماز کے لئے تازہ دم ہوجائیں ورنہ یہ کہ ذکر اللہ کرو۔ سنن کو بعد اقامت فرائض نہ پڑھنا چاہیے۔ لیکن سنت فجر کی حنفیہ اجازت دیتے ہیں کہ جب تک ایک رکعت پالینے کی بھی امید ہو سنت پڑھ لے کیونکہ احادیث میں تاکید ہونے کی وجہ سے وہ قریب بواجب ہیں۔ نیز ایک روایت میں الارکعتی الفجر بھی آگیا۔
خرج رسول اللّٰہ ﷺ الخ اسمیں فلا اذًا کے معنے شوافع یہ لیتے ہیں کہ خیر انکا کچھ حرج نہیں یعنی فلا باس اذًا اور اسی بناء پر وہ