بعدالیوم الثانی ثابت کیا ہے۔
باب لانکاح الا بولی
امام صاحب کے نزدیک نکاح منعقد ہوجاتا ہے البتہ ولی کو حقِ اعترض پہنچتاہے اگر کوئی خرابی دیکھے۔ اوّل تو یہ روایت قابل العمل نہیں اور پھر بعض روایات اسکے مخالف ہیں آپﷺکے زمانہ میں نکاح بلا ولی منعقد ہوا اور پھر باقی بھی رہا۔ جیسے حضرت عائشہؓ کی برادر زادی کا قصّہ ہے کہ عبدالرحمنؓ نے پسند تو نہ کیا مگر حضرت عائشہؓ کے مجوزہ نکاح کو فسخ کرنا بھی ٹھیک نہ سمجھا۔ اسکے علاوہ اگر قابل العمل ہو بھی تو ضروری نہیں کہ وہی معنے لئے جاویں جو شوافع سمجھے ہیں بلکہ مراد عدم لزوم ہے یعنی یہ نکاح لازم البقا نہیں۔ چنانچہ لابیع بین المشتری والبائع مالم یتفرقا میں شوافع بھی نفی لزوم مراد لیتے ہیں جن حضرات کا مذہب لا نکاح لانکاح الا بولی ہے ترمذی کہتے ہیں ممکن ہے کہ وہ امام صاحب کے موافق ہوں اور نفی لزوم مراد لیتے ہوں ظاہر ہے کہ عدم علاقہ کا تو کوئی قائل نہیں دیکھو۔رجم وجلد کا فتویٰ اس قسم کے نکاح ووطی پر کوئی نہیں لگاتا۔ یا تاویل کی جائے کہ آپﷺاس طرح فرماتے ہیں کیونکہ ناقصاتِ عقل ودین ہیں پس بلا استصواب ولی بہتر نہیں ہے کہ نکاح کربیٹھیں۔ جیسا کہ بیع میں وارد ہے کہ عورت کی بیع نہیں جب تک وہ اپنے زوج سے استفسار نہ کرے حالانکہ زوجہ کی بیع بلااذن زوج تام ہوجاتی ہے اور اسکو سب مانتے ہیں کیونکہ عورت کا تصرف اپنی مملوکہ شے میں ضرور نافذ ہوتا ہے پس اسی طرح اس قسم کا نکاح بھی درست ہوجائیگا البتہ ناپسندیدہ اور خلاف مصلحت ہے چونکہ بیع میں خسارہ کا اندیشہ ہے اور نکاح میں بھی کسی غلطی میں پڑنے کا خوف تھا لہٰذا آپﷺنے بتاکید منع فرمادیا۔ اور یہ بھی ہے کہ اگر مراد نکاح عورتوں کے ہاتھ میں تفویض ہوگا تومفضیٰ الیٰ الزنا ہوجائیگا نیز نکاح میں اعلام چاہیے۔ یہ کیا کہ ایسے خفیہ نکاح کرلیں کہ ولی بھی مطلع نہ ہو۔باطل باطل یعنی غیر مرضی ولیس بلازم اوقریب بالفسخ والبطلان۔
باب البینۃ
امام صاحب کے نزدیک دو عورت اور ایک مرد کی شہادت سے بھی نکاح درست ہے جمہور کے نزدیک یہ ضروری ہے کہ دونوں گواہ معًا سنیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اگر آگے پیچھے یکے بعد دیگرے بھی سن لیں تو کافی ہے۔
باب الاستیمار من البکر والثیب
لا تنکح الثیب الخ یہ امام صاحب کی دلیل ہے کہ علت جبر صغر ہے نہ کہ بکر۔ امام شافعیعلت جبر بکارت کو فرماتے ہیں لیکن یہاں باکرہ سے بھی اجازت ضروری فرمائی گئی تو معلوم ہوا کہ جبر صرف صغیرہ پر ہی ہے ترمذی کے وان زوجھا الاب فرمانے سے ظاہر ہوگیا کہ نکاح موقوف بھی جائز ہے۔