باب قسمۃ البکر والثیب
بہتر اور مسنون بالاتفاق ہے کہ دوسرا نکاح اگر بکر سے کرے تو اسکے پاس سات شب رہے اور اگر ثیبہ سے کرے تو تین شب۔ لیکن امام صاحب فرماتے ہیں کہ پھر اسی قدر ہر ایک کے لئے تقسیم کیا کرے۔ او رشوافع و دیگر ائمہ کہتے ہیں کہ اسکے بعد علیحدہ حساب اور مساوی درجہ رکھے۔ یہ سات روز گویا اسکی خاص رعایت تھی۔
باب اسلام احدالزوجین
میں امام کے نزدیک دوسرے پر اسلام پیش کیا جائے پس اگر وہ بھی قبول کرلے تو نکاح باقی رہے گا ورنہ اسکے انکار عن الاسلام سے نکاح ٹوٹ جائیگا پس یہ اقرار وانکار خواہ عدت میں ہو یا بعد الموت ہو۔
باب الوفات قبل الدخول
امام صاحب نے حدیث پر عمل فرما یااور معلوم ہوتا ہے انکا قیاس بھی حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کے قیاس کے موافق ہوگا۔ ہاں شافعی نے ابن مسعودؓ کے قول کو خلاف قیاس سمجھا اور حدیث کو ضعیف ۔ ہا ں جب حدیث کی صحت کاثبوت ہوگیا تو مان گئے لیکن قیاس انکا وہاں تک نہ پہنچا۔ دیکھئے ابن مسعود ؓ کا قیاس نص کے موافق ہو ا حالانکہ نص خود مخالف قیاس نظر آتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ کوئی نص واقع میںخلاف قیاس نہیں ہوتی یہ ہمارے قیاس کا نقصان ہے کہ اسکو خلاف قیاس سمجھتے ہیں۔لہٰذا جس جگہ علماء لکھتے ہیں کہ یہ حکم خلاف قیاس ہے مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارے قیاس کے خلاف ہے یا ظاہر میں خلاف قیاس ہے۔
باب لاتحرم المصۃ ولاالمصتان
عشر رضعاتٍ تو بالاتفاق منسوخ ہوا۔ اب خمس رضعات شوافع نے لیا امام احمد نے ظاہر حدیث کی وجہ سے تین کو محرم ٹھہرایا ہے ۔ حنفیہ نے آخر تک پہنچا کر چھوڑا کہ مطلقًا محرم ہے اس بارہ میں توسع سے تنگی اور قلت کی طرف رجوع ہورہا ہے کوئی درمیان میں رہا اور کوئی کسی جگہ ہاں حنفیہ آخر تک ساتھ رہے اور مطلقًا محرم قرار دیکر چھوڑا۔
باب شہادۃ امرأۃ واحدۃ
اس موقعہ میں آپﷺ کو بذریعہ الہام ووحی علم ہوگیا ہو یا آپﷺ کی خصوصیت ہو غرض قضاء بشہادۃ واحدۃٍ جائز نہیںحرمت رضاع عند الامام تیس ماہ تک ثابت ہوتی ہے بعض کے یہاں دو برس تک اور بعض نے چار برس اور بارہ برس بھی فرمائے ہیں۔ یذہب مذمۃ الرضاع یہ غرض نہیں کہ اسکے بعد سلوک واحسان کی ضرورت نہیں بلکہ اس قدر تو ضرور۔