ایک دفع فوتِ جماعت پر مکان پر جاکر اہل وعیال جمع کرکے نماز پڑھنے سے ثابت ہوتاہے کہ نماز بالجماعت مسجد میں مرۃ ثانیہ مکروہ ہے ورنہ آپ ﷺضروری جماعت کرلیتے دوسرے صحابہؓ بھی کبھی تو جماعت ثانیہ کرتے بلا اذان واقامت گوشہ مسجد میں بلا اعلان پڑھنے کی اجازت سے صاف ظاہر ہے کہ ثانیہ میں کوئی خرابی ہے ورنہ جماعت جس میں اس قدر اعلان ضروری تھا کہ اذان و تکبیر کہی جاتی تھی کیوں اس طرح خفیہ کی جاتی ایک مسجد میں تکرار جمعہ جائز نہ ہونے سے بھی ظاہر ہے کہ جماعت ثانیہ جماعت ہی نہیں۔ کیونکہ باوجود جملہ شرائط کے موجود ہونے کے جمعہ مرۃً ثانیہ جائز نہ ہونے کی بھی وجہ یہی ہے کہ جماعت جو ایک شرط تھی وہ باقی نہیں باوجود اس قدر وجوہات ودلائل کے تعجب ہے کہ بعض اس زمانہ کے مولوی جماعت ثانیہ پر بے طرح زور لگارہے ہیں خداجانے انکی عقل کہاں گئی نہ زمانہ کے حال سے واقف ہیں نہ ہی جماعت ثانیہ کے مآل اور بُرے اثر پر نظر کرتے ہیں۔ فقہ کی کسی ایک روایت کو ذرا موافق پاکر اسے گھڑ مڑھکر سامنے کردیتے ہیں حنفی حنفی کہلاتے ہیں اور امام کی بات جو بدیہی ہے اسکو نہیں مانتے۔ حنفی کی خلاصی کے لئے تو یہی کافی ہے کہ ہمارے امام کا یہ مذہب نہیں۔ لیکن باوجود مرحجّات مذہب امام اور مؤیدات کراہت کے استحباب اور اولویت جماعت ثانیہ پر اڑ رہے ہیں۔ رفع یدین میں تو باوجود احادیث صریحہ کے امام کی آڑ پکریں اور کہیں کہ امام کا مذہب نہیں اور خوب جمیں اور حنفیت کا دعویٰ کریں اگر کوئی غیر مقلد رفع یدین کرے تو اخراج من المسجد کا حکم دیں تاکہ پاس والوں کی نماز خراب نہ ہو اور یہاں امام کی بات نہ مانیں بلکہ اِدھر اُدھر کی باتیں بنائیں اور حدیث کا بہانہ لیں ۔ حدیث میں نہ صراحت ہے نہ پوری تائید۔ رفع سبابہ پر تو انگلی اڑادیں کیونکہ خلاصہ کیدانی میں حرام لکھا ہے لیکن جماعت کو باربار کریں کہ سہولت للعوام ہے
ببیں تفاوت رہ از کجاست تابکجا
معلوم ہوا کہ وہاں بھی امام کی وجہ سے نہ جمتے تھے بلکہ ہوائے نفس سے ورنہ یہاں بھی تو وہی امام ہیں کیوں پورے مقلد نہیں بنتے۔ مسجد سوق وہ ہے جس میں قوم و امام ومؤذن معین نہ ہو جیسے بعض ــجگہ بازار لگنے سے کسی وقت ہجوم ہوجائے اور پھر وہاں نہ قوم رہے نہ امام ایسی مسجد میں تکرار جائز ہے اور ہر جماعت جماعت اولیٰ ہے جیسے صحراء میں لیکن اس میں ترک اذان واقامت ضروری نہیں بلکہ خوب اذان واقامت سے جماعت ہو لان لکل جماعۃ منھا حکم الاولیٰ مگر سوق سے یہ ہرگز نہ سمجھنا چاہیے کہ جو مسجد برسر بازار ہو گو امام اور نمازی مقرر ہوں۔ نیز اگر غیر محلہ کے آدمی آکر جماعت کرگئے ۔ تب بھی اہلِ محلہ کو جماعت ثانیہ مکروہ نہیں۔
باب فضل صف اولیٰ