قالت عائشۃ لایبالی الخ۔
باب فضل الصوم
الصوم لی میں شبہ واقع ہوتاہے کہ اور عبادات بھی تو خدا ہی کے لیے ہیں اس کی کیا تخصیص ہے؟ اس کی توجیہات میںسے ایک یہ ہے کہ صوم چونکہ ریاء کا احتمال نہیں رکھتا پس وہ محض بوجہ اللہ ہے بخلاف دیگر عبادات کے۔ یا یہ کہ صوم میں حظ نفس بالکل نہیں باکل قہر ومحنت ہی ہے بخلاف صلوۃ وحج وزکوٰہ کے کہ اس میں بسا اوقات طبیعت لگتی ہے اور دل چاہتاہے۔ نماز میں بوجہ قرأت قرآن یا قاری خوش الحان کی وجہ سے اور حج میں امکنہ مختلفہ بعیدہ کی سیر حاصل ہوتی ہے اس وجہ سے کبھی دل لگتاہے۔ زکوٰۃمیں اسخیا کو دینے اور خرچ کرنے سے ایک حظ حاصل ہوتاہے۔ یا یہ کہ صوم صفات خداوندی سے ہے یعنی عدم اکل وشرب وغیرہ پس عبد اس حالت میںمتصف بصفات معبودہوتاہے۔ یایہ کہ صوم ایسی چیز ہے کہ جس میں زمانہ جاہلیت میںشرک نہیں ہوا۔ روزہ بجز خدا تعالیٰ کے اور کسی کے لیے نہیں رکھا گیا بخلاف سجدہ اور اضحیہ کے۔ مگر فی زماننا یہ خصوصیت صوم کو حاصل نہ رہی کیونکہ پیر پرستوںنے پیروںکے نام کے روزے بھی گھڑ لئے اور بعض ہنود بھی اصنام کے لیے رکھتے ہیں ایسا ہی شبہ انا اجزی بہ میںہے کیونکہ ہر عبادت کا ثواب خدا تعالیٰ ہی عطا فرمانے والا ہے پھر تخصیص کیسی؟ توجیہ یہ ہے کہ بلاواسطہ عطا فرمائیں گے بخلاف اور عبادات کے کہ وہاں بواسطہ ملائکہ عطاہوگا اس بلاواسطہ عطاء میں زیادتی کے طلب کرنے کی بھی گنجائش ہوگی لان اللہ مالک الملک بخلاف ملائکہ کے کہ وہ حکم یس حبہ بھر زیادہ نہیں دے سکتے۔ نیز خود عطا فرمانے میں فضل وشرف بیحد ہے اور باعث فخر ومباہات عبید ہے جیسے بادشاہ کسی کو اپنے ہاتھ سے خلعت پہنادے۔ یا یہ کہ انا اجزی بہ سے مطلب یہ ہے کہ جو کچھ چاہوں گا عطا کروں گا بلا قید تعین واندازہ۔ فرحت عنداللقاء تو ظاہرہے۔ عندالافطار میں دو فرحتیں ہیں ایک بحسب الطبع لذہاب الموانع ووصول الغذاء الی الجوف کما قال النبی علیہ السلام ذہب الظماء وابتلت العروق الخ اورثانی فرحت بسبب انجام واتمام مامور بہ کے اور بسبب یقین ثبوت اجر عنداللہ کے کما قال علیہ الصلوٰۃ والسلام وثبت الاجر انشاء اللہ تعالیٰ۔
باب صوم الدہر
اختلاف اس میں ہے کہ صوم دہر سے کیا مرادہے؟ شوافع اس طرف مائل ہیں کہ مع ایام منہی عنہا کے تمام سال روزہ رکھے یہ صوم دہرہے اوریہی مکروہ ہے امام صاحب کے نزدیک صوم دہر سے مراد تمام سال کے روزے ہیں علاوہ خمسہ ایام منہی عنہا کے شوافع اس صورت کو جائز کہتے ہیں اورکہتے ہیں کہ مکروہ وہی ہے کہ مطلقا افطار نہ کرے لیکن ظاہرہے کہ اگر صوم دہر سے یہ مراد ہو جو شوافع کہتے ہیں تو وہ حرام ہونا چاہئے نہ کہ صرف مکروہ اور یہ جواب بھی حنفیہ کی مرادپر دال