باب تحیۃ المسجد
مسنون سب کے نزدیک ہے لیکں امام صاحب ؒ اوقات مکروہ میں جائز نہیں فرماتے اور امام شافعی ؒ نہی عن الاوقات المکروہہ ے اسکو مسثنیٰ کہتے ہیں علماء نے اتنا لکھا ہے کہ اگر ہر دفعہ نہ ہوسکے تو جس مسجد میں پنجگانہ حاضر ہوتا ہے کم از کم اس میںہر روز ایک دفعہ پڑھ لیا کرے۔
باب الأرض کلہا مسجد الخ
حمام میں بوجہ نجاست اور بوجہ کشف عورت وغیرہ سے اور مقبرہ میں بخوف نجاست وتشبہ بعبادۃ القبور منع فرمایا۔ طاہر جگہ ہو تو مقبرہ میں نماز جائز ہے بشرطیکہ قبر سامنے نہ ہو۔ قبر پر نماز پڑھنا اور قبر کو مسجد میں لیکر فرش کے مستوی کرکے اس پر نماز جائز نہیں۔
(او یستنبط من بعض کتب الفِقہ ان، یجوز (راقم)
باب من بنیٰ للّہ مسجدًا
یعنی جو مکان اس کے مناسب ثواب میں ہوگا وہ عطا ہوگا یا مساوات باعتبار طول وعرض مراد ہو۔
باب اتخاذ المساجدعلی القبور
یعنی قبور کو سجدہ گاہ نہ بناؤ اور قبور کو سجدہ نہ کرو چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ لعن اللّٰہ الیھود والنصاریٰ اتخذوا قبور انبیائھم مساجدا۔
یہاں بھی یہی مراد ہے اور مسجد اصطلاحی بھی مراد ہوسکتی ہے کہ مسجد بناکر پھرسجد ہ کیا جائے تووہ بھی قبور کا سجد اگر ہوگا تا باعثِ مذمت ہے۔
عورتوں کے واسطے زیارت قبور میں خلاف ہے بعض لوگ اجازت فرماتے ہیں اور اس قسم کی احادیث قبل الاجازت پر حمل کرتے ہیں اور ایک گروہ علماء کا کہتا ہے کہ آپ ﷺ نے ممانعت عامہ فرمانے کے بعد جو اجازت فرمائی وہ اجازت عورتوں کو شامل نہ تھی بلکہ صرف مردوں کو خطاب ہے کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور الافزوروھا۔ عورتیں بحالہا ممانعت میں داخل ہیں غرض بحث صرف اس میں ہے کہ یہ اجازت نسوان کو بھی ہے یا نہیں جولوگ اجازت کو عام کہتے ہیں وہ بھی امور عارضہ مثل کثرت جزع وفزع اور رقت قلب اور قلت صبر کی وجہ سے انکو منع کریں گے گو اصل سے جائز ہو اور ہمارے زمانہ کے تو مردوں کو بھی زیارت قبورجائز نہ ہونی چاہیے کیونکہ خرابی کی وجہ سے آپ ﷺ نے ممانعت ِ عام اوّل دفعہ