بوقتِ حصر زیادہ ملال نہ ہوگا۔ اگرچہ بلا شرط بھی حلال ہونا جائز تھا مگر شرط آئندہ کی احتیاط کے لئے مناسب ہوگی۔ ابنِ مسعودؓ کا بھی یہی مذہب ہے اور ابنِ عمر ؓ بھی شرط سے منع فرماتے تھے۔
باب الطواف للحائضۃ
طواف افاضہ حضرت صفیہؓ کرچکی تھیں۔ باقی طواف وداع حیض ونفاس سے ساقط ہوجاتا ہے اگرچہ فی نفسہٖ واجب ہے۔ سعی وغیرہ جملہ افعال حج حائضہ کرسکتی ہے۔ البتہ سعی جو طواف پر مشروط ہے وہ اس وجہ سے نہیں کرسکتی کہ ابھی طواف نہیں کیا۔ اور طواف حیض میں جائز نہیں کیونکہ وہ مسجد حرام میں ہوتا ہے ولا یجوز دخول الحائض فی المسجد ۔ لہٰذا سعی بھی موقوف رہے گی۔ ہاں اگر بعد طواف کے حائضہ ہوئی توسعی اد اکرلے۔
باب السعی والطواف للعمرۃ
قرن الحج والعمرۃ الخ۔اسکا پہلا جملہ حنفیہ کے موافق اور دوسرا شوافع کے لئے مؤید ہے پہلے جملہ سے صاف قران ثابت ہے۔ اس بارہ میں صرف ابنِ عمر ؓ کی روایت قولی ہے جس سے طواف واحد ثابت ہوتا ہے اسی میں دراوردی وہ راوی ہے جسکی تضعیف شوافع خود چند جگہ کرتے ہیں اور اسکی وجہ سے حدیث ضعیف ہوجاتی ہے۔اور پھر ثقات کا خلاف کررہے ہیں ۔ لہٰذا یہ حدیث حنفیہ پر حجت نہیں ہوسکتی ۔ نسائی کے ماسویٰ میں سعیٰ سعیین کی روایتیں موجود د ہیں۔ عبداللہ بن مسعود اور حضرت علی رضی اللہ عنہما بھی اسی جانب ہیں اور یہ روایت مُثبتِ زیادۃ ہیں۔ پس حنفیہ انہیں کو لیتے ہیں نیز سعی وطواف واحد کافی ہونا خلاف قیاس ہے۔ بعض شوافع نے بھی لکھدیا ہے کہ احتیاط دو طواف وسعی میں ہے۔ ابنِ عمرؓ کی روایت میں یہ تاویل ہوسکتی ہے کہ طواف واحد سے مراد واحدًا واحدًا ہو یا یہ مطلب ہے کہ عمرہ سے حلال ہوکر یہ نہ سمجھے کہ ایک فعل سے حلال ہوگیا۔ اب جنایت وغیرہ مضاعف نہ ہوگی بلکہ حلال ہونا ایک طواف سے ہوگا اور وہ آخر کا طواف ہے حلال ہونے میں پہلے طواف کا اعتبار نہیں۔ غرض اس صورت میں خلاصہ حدیث یہ ہو ا کہ حلال ہونے کے لئے ایک ہی طواف ہے۔
باب المکثِ بمکۃ
یہاں تحدید شرعی مراد نہیں کہ تین روز سے زیادہ ٹھہرنا منع ہو بلکہ غرض یہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ نہ ٹھہرو۔ ہاں بشرط ضرورت جب تک ضرورت ہو ٹھیرے رہو چنانچہ فتح مکہ میں آنحضرتﷺ اُنیس روز ٹھہرے تھے ۔ وجہ ممانعت کی یہ ہے کہ آپﷺپسند نہیں فرماتے تھے کہ کسی مہاجر کا انتقال ودفن مکہ میں ہو کیونکہ یہ صورت ہجرت کے خلاف ہے لہٰذا بیش از حاجت ٹھہرنا منع ہو ا پس حضرت عثمان ؓ کے اتمام صلٰوۃ کا جواب جو حنفیہ دیتے ہیں کہ انہوں نے اقامت کی نیت