جائز ہے یا تو احرام کے لئے کپڑے اسکو پہنادے یا برہنہ کردے کیونکہ بچہ کے لئے برہنہ رہنا بھی جائز ہے۔ اگر مخیط بھی پہنے رہا تو دم واجب نہ ہوگا ۔ صبی اور رقیق میں اتنا فرق ہے کہ صبی اگر بعد احرام کے بالغ ہوا اور اس نے احرام کو نہ بدلا تو فرض حج ادا ہوجائے گا اور یہی معتبر رہے گا۔ غلام اگر آزاد ہوجائے تو اسکا یہ حکم نہیں ۔کما فی الفقہ۔
باب الحج عن الغیر
عندالامام جب جائز ہے کہ عذر دائمی ہو اور آخر تک باقی رہے ۔ حج تطوع میں شرط نہیں۔ میت اگر مال چھوڑ جائے اور وصیت کرجائے تو اسکی طرف سے حج کرانا واجب ہے بلا وصیت بھی حج اگر کرادیاجائے تو ادا ہوجائیگا انشاء اللہ تعالیٰ کذا قال محمد۔
باب الحج والمعرۃ
عمرہ اکثر کے نزدیک سنت مؤکدہ ہے واجب نہیں۔ عند الحنفیہ ایک روایت میں واجب ایک میں سنت ہے (عند الشافعی واجب ہے ) دخلت العمرۃ فی الحج کے صحیح معنیٰ وہی ہیں جو ترمذی بتلاتے ہیں ۔ چنانچہ اہل جاہلیت میں یہ فقرہ مشہور تھااذا مضی الصفر وعفی الاثر حلت العمرۃ لمن اعتمر۔ شوافع کا مذہب یہ ہے کہ قران میں ایک طواف اور ایک سعی حج وعمرہ کے لئے کافی ہے۔ مذہب سے یہاں بحث نہیں مگر بعض نے کما ل کیا ہے کہ اس روایتدخلت العمرۃ فی الحج کے یہ معنیٰ بیان کئے ہیں کہ افعال عمرہ حج میں داخل ہوگئے یعنی ایک طواف و سعی دونوں کے لئے کافی ہے۔ یہ معنیٰ قابل تعجب ہیں درست معنیٰ وہی ہیں جو ترمذی نے بیان کئے ۔ حضرت عائشہؓ کو عمرہ تنعیم سے کرایا گیا کیونکہ حدود حرم میں وہ سب سے اقرب جگہ تھی دیگر جوانب میں حرم دور تک تھا اور حل بعید تھا۔ اس سے معلوم ہو ا کہ احرام عمرہ کے لئے حل ضروری ہے ورنہ آپﷺکس لئے تنعیم تک روانہ کرنیکی تکلیف گوارا فرماتے۔ قران میں اور عمرہ فوت ہوتو قضا واجب ہے کیونکہ احرام حج وعمرہ کا منعقد ہوا ہے۔
باب الحصر بالمرض
حصر بالعدو میں اتفاق ہے لیکن حنفیہ حصر بالمرض کے بھی قائل ہیں ۔ شوافع کہتے ہیں کہ حصر بالمرض معتبر نہیں۔ البتہ اگر عندالاحرام شرط کرلی ہو تو اعتبار ہوگا۔ حنفیہ کے یہاں شرط و بلا شرط برابر ہے۔مَنْ کُسِرا وعُرجَ حنفیہ کی دلیل ہے کہ صرف مرض سے بھی حصر ہوسکتا ہے۔ شرط کے بعد شوافع بھی جائزکہتے ہیں ۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر شرط و عدم شرط برابر ہوگا تو پھر شرط سے کیا فائدہ ہو۔ جواب اسکا یہ ہے کہ اگر کسی فعل مرغوب میں کوئی مانع دفعۃً آجاتا ہے تو رنج زیادہ ہوتا ہے اور اگر پہلے سے شبہ اور اندیشہ ہوتا ہے تو اتنا رنج نہیں ہوتا پس پہلے سے شرط کرنے میں ہر دو جانب کا خیال رہے گا اور