معلوم ہوتاہے کہ آپ ﷺ نے اجازت فرمادی تھی۔ پس اس صورت میں روایات ممانعت سے تو تعارض ہی نہ ہوگا اور اشتراط کی تاویل کردیں گے کہ جابر ؓ پہلے سے کہتے تھے کہ یاحضرت بیع تو کروں مگر مکہ میں کس طرح پہنچوں گا۔ آپ ﷺ نے پہلے ہی سے فرمادیا کہ تم سوار ہولینا، امام محمد واسحق اشتراط کی روایت کو لیکر دوسرے کی تاویل کرتے ہیں ہم نے عکس کردیا اور تعارض وترک روایات ہی سے بچے رہے اور قواعد کا بھی خلاف نہ لازم آیا۔ اور ممکن ہے روایت تو اشتراط کی لیں لیکن شرط کو صلب عقد میں داخل نہ مانیں، آپ ﷺ نے قبل العقد ہی فرمالیا ہوگا کہ تم بیع کردو سواری کی فکر نہ کرویا بعد البیع فرمایاہو۔
باب المکاتب
ابوداؤد میں روایت ہے کہ المکاتب عبد مابقی علیہ درہم۔ اسی پر عمل ہے اس باب میں مذکور روایت پر عمل نہیں وہ روایت اس کی ناسخ ہوسکتی ہے۔ پردہ کاحکم اگرچہ استحباب پر محمول ہے لیکن امام صاحب تو مکاتب سے پردہ واجب فرماتے ہیں پس وہ کہیں گے کہ سخت اور گہرے پردہ کاحکم استحبابی ہے گو فی نفسہ پردہ پہلے سے واجب تھا۔
باب من وجد شیئا بعینہ
اس میں خلاف نہیں جو شخص اپنے اسباب کو بعینہ پاوے وہ احق ہوتاہے لیکن اس میں اختلاف ہے کہ بعینہ سے کیا مرادہے؟ امام صاحب فرماتے ہیں کہ بعینہ صرف شے مرہون یا امانت ہوسکتی ہے شے مبیع بعد البیع بعینہ نہیں رہتی کیونکہ تبدل ملک سے تبدل عین ہوجاتا ہے قصہ لحم بریرہ ؓا اس کے لیے شاہد ہے دیگر بعض روایات من وجد بعینہ کے مسئلہ میں حنفیہ کے مخالف ہیں۔
باب خل الخمر
خل خمر کی حلت میں خلاف نہیں لیکن اتخاذ خل من الخمر میں اختلاف ہے پس بعض ائمہ ناجائز فرماتے ہیں لیکن امام صاحب اتخاذ خل من الخمر کو ضرورتا جائز کہتے ہیں مگر اچھا نہیں باقی خمر یتیم کو گرادینے کا امر اس لئے فرمایا کہ آپ نے بیت مسلم میں خمر کا رہنا پسند نہ فرمایا۔ یا ابتدائے حرمت خمر پر محمول ہوکہ جب آپ ﷺ نے ظروف کو بھی منع فرمادیا تھا اسی وقت اراقۂ خمر یتیم کاحکم فرمایا ہوگا۔
باب العاریۃ مؤداۃ
العاریہ مؤداۃ کو امام صاحب بھی مانتے ہیں لیکن اس سے ادائے ضمان ثابت نہیں ہوتا بلکہ اگر غور سے دیکھاجائے تو الدین