المقام پڑھنا سنت ہے۔ رمل عند الجمہور تو من الحجرالی الحجر ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ صرف حجر سے رکن تک یعنی تین طرف اور باقی ایک طرف رمل نہ کرے بلکہ اپنی ہیئت پر چلتا رہے۔ استلام عند الجمہور صرف حجر اور رکن یمان کا ہے۔ اضطباع سنت ہے تقبیلِ حجر سنت ہے ۔ لیکن بطور تعظیم ہے کہ بطور پرستش جیسا کہ بعض آدمیوں کی تعظیم ہمار ے اوپر ضروری بلکہ واجب ہے حالانکہ پرستش انکی کفر ہے اسی طرح حجر کی تقبیل بروئے تعظیم ہے نہ بروئے عبادت۔
باب السعی
صفا مروہ کی سعی کی بہت سی وجوہ ہیں ازانجملہ یہ بھی ہے کہ مشرکین کو خوف دلایا جائے روایات میں ہے کہ یہ ہاجرہؓ کی سنت ہے۔
باب الطواف
طواف راکباً میں بعض کہتے ہیں کہ دم واجب ہوگا باقی رہا آپﷺکا فعل یا تو اس لئے تھا تاکہ سب لوگ آپﷺکے افعال کو دیکھتے رہیں اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ آپﷺکی طبیعت کچھ ناساز تھی۔ حالت عذ ر میں راکبًا جائز ہے۔
باب صلٰوۃ الطواب بعد العصر والفجر
أیَّۃُ ساعۃ شاء کی وجہ سے شوافع ان اوقات میں بھی جائز کہتے ہیں۔ حنفیہ ممانعت کا حکم دیتے ہیں ۔ متعدد روایات میں ان اوقات میں نماز پڑھنے کی ممانعت آئی ہے ان سے اُسکی تخصیص کرلیں گے۔ علاوہ اسکے جو مطلب شوافع اس سے سمجھتے ہیں وہ اس سے سمجھا نہیں جاتا کیونکہ اسمیں محافظین کو حکم ہے کہ تم کسی وقت منع نہ کرو مصلین کو خطاب نہیں کہ تم ہر وقت پڑھتے رہو جیسا کہ اہلِ صدقہ کو تو یہ حکم ہے کہ جس طرح ہوسکے مصدق کو راضی کرو وان ظلمتم اور مصدقین کو سہولت کی تاکید کرکے فرمایا جاتا ہے کہ المتعدی فی الصدقۃ کما نعھا۔ اب اس سے جواز ظلم سمجھنا فہم سے بعید اسی طرح یہاں جواز صلٰوۃ فی الاوقات المکروہۃ نہ سمجھنا چاہیے۔ بلکہ محافظین کو تاکید مقصود ہے جو تھوڑی بہت دیر کو کھل کر بند کریتے تھے کہ تم کسی وقت حارج اور مانع نہ بنو پس اس اجازت میں سے اوقات مکروہہ عرفاً ومحاورتاً مستثنیٰ ہیں۔ کاش أیَّۃُ وقتٍ شاء کا خطاب مصلین کو ہوتا تو شوافع کی حجت قطع ہوجاتی۔ مؤطا میں ہے کہ ابن عمرؓ نے طواف کیا اور بوجہ طلوع آفتاب رکعتین نہ پڑھیں سوار ہو چلدئیے دور جاکر اد افرمائیں۔
ابواب
دخول کعبہ کے بعد آپﷺکو ملال اسکا ہوا کہ لوگ اسکو ضروری سمجھ کر حرج میں پڑجائیں گے چنانچہ آجکل بعض لوگ