تعارض ہو ا تو ہم نے قیاس کی طرف رجوع کیا قیاس نے عصر میں حدیث اباحت کو ترجیح دی اور صبح میں حدیثِ ممانعت کو۔ دوسری تاویل طحاوی وغیرہ کی یہ ہے کہ یہ اس شخص کا حکم بیان فرمایا گیا ہے جو آخر وقت میں اہل للصلٰوۃ ہوجائے مثلاً حائضہ ایسے وقت میں پاک ہووے کہ ایک ہی رکعت کا وقت باقی تھا۔ پس آپ ﷺ نے فرمادیا کہ من ادرک رکعۃ الخیعنی اس پر نماز واجب ہوگئی یہ نہیں کہ عذر کرے کہ مجھکو اتنا وقت نہیں ملا کہ ادائے صلوٰۃ کروں اس صور ت میں اس روایت کو باب المواقیت سے علاقہ نہ رہے گا۔ کاش اس حدیث کا شانِ نزول معلوم ہوجاتا تو فیصلہ ہوجاتا۔ مثلاً اگر یہ محقق ہوجاتا کہ کسی حائضہ وغیرہ کے جواب میں ارشاد فرمایا گیا ہے تویہ تعارض بین الاحادیث نہ رہتا اور اگر کسی ناسی عن الصلوٰۃ کے لئے فرمانا قطعی ہوجاتا تو امام شافعی ؒ صاحب کا مذہب یقینی ہوجاتا احتمال جانب آخر نہ رہتا۔ لیکن یہ بہتر ہے کہ کہا جاے کہ امام نے وہ معنی لئے ہیں کہ تعارض ہی نہیں رہتا وہ یہ کہ آنحضرت ﷺ نے فقد ادرک کے مفعول کو ذکر نہیں کیا۔ پس ممکن ہے کہ ثواب نماز اور فضیلت وقت مراد ہو تو آپ ﷺ کا یہ فرمانا کہ ایک رکعت کے پالینے سے ثواب صلوٰۃ یا فضیلت وقت کو پالیوے گا۔اس ممانعت کے منافی نہیں پس اب حاصل یہ ہوگا کہ اگر کوئی ایک رکعت کا وقت بھی پالے تو یہ نہ کرے کہ تساہل وتکاہل میں گذار دے کہ اب تو وقت ہے ہی نہیں۔ بلکہ اسی وقت شروع کردے تاکہ فضیلت حاصل ہوجائے کما مر فی قصۃ ابی یوسف وابی حنیفۃ رحمہمااﷲاب باقی رہی وہ روایت کہ جس میں آپ ﷺ نے ولیصل معھا رکعۃ اُخریٰ فرمایا ہے اسکا جواب یہ ہوگا کہ ممکن ہے کہ راوی نے روایت بالمعنیٰ کردی ہو اور اپنے فہم سے یہ تفسیر کردی ہو چنانچہ اور بھی مواقع میں اسی طرح جواب دینا پـڑتا ہے ہم چونکہ مستدل نہیں ہیں لہٰذا احتمال نکالنا کافی ہے۔
باب الجمع بین الصلوٰ تین
ابن عباس ؓ کی ہر دو روایات میں پہلی زیادہ قوی ہے اور دوسری ضعیف لیکن پہلی روایت منجملہ ان روایات کے ہے جنکی نسبت ترمذی کہتے ہیں کہ وہ کسی اہل علم کا مذہب و مسلک نہیں پس بظاہر معنیٰ حدیث ضعیف معمول بہا ہوگی اور حدیث اول متروک ۔ لیکن حنفیہ جو معنیٰ لیتے ہیں انکے بموجب نہ کسی روایت کو ترک کرنا پڑتا ہے اور نہ کسی روایت سے تعارض ہوتا ہے یعنی جمع سے جمع صوری مراد ہونہ کہ حقیقی چنانچہ حنفیہ ہر جگہ حدیث جمع کو اسی پر حمل کرتے ہیں۔ پس جس روایۃ میں وعید آئی ہے وہ جمع حقیقی پر ہے اور جواز جمع صوری کا ہے ۔ ابن مسعود ؓ جو حج کے باب میں جمع بین الصلوٰتین کا حصر فرماتے ہیں وہ بھی حنفیہ کی دلیل ہے (وبیانہ فی تقریرنا لمسلم فانظر ان اشتھیت)
باب بدء الاذان
مدینہ میں آنے کے بعد پہلے تو ناقوس ونار وغیرہ کی صلاح ہوئی۔ لیکن بالآخر حضرت عمر ؓ کی صلاح سے حضرت بلال ؓالصّلوٰۃ