سے پہلے مس ذکر کے یہ معنیٰ بیان کرچکے ہیں۔
باب ترک الوضوء من القُبلۃ
امام صاحب ؒ واکثر صحابہ وتابعین کا مذہب یہی ہے لیکن امام شافعی ؒوضوء کو واجب فرماتے ہیں لیکن تصریح احادیث وروایات سے مذہب جمہور کو تقویت ہوتی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے رات کو آپ ﷺ کو بستر پر نہ پایا تو ٹٹولنا شروع کیا آپ ﷺ کے قدم مبارک پر اس حال میں ہاتھ پہنچا کہ وہ منصوب تھے تب انہوں نے سمجھا کہ آپ ﷺ نماز میں ہیں ۔ پس اگر حضرت عائشہ ؓنقص وضوء بمس المرأۃ کی قائل ہوتیں تو کس واسطے اس طرح تلاش کرتیں کہ آپ ﷺ کی نماز و وضوء باطل ہوجائے۔ اب یہ تاویل کرنی کہ حضرت عائشہ ؓنے ہاتھ پر کپڑا لپیٹ لیا تھا۔ جس قدر بعید ہے پوشیدہ نہیں۔ یہ قول بھی بلا دلیل ہے کہ آپ ﷺ حکم سے مستثنیٰ تھے جیسے کہ وضوء من النوم سے آپ ﷺ مخصوص تھے کیونکہ نوم کے متعلق دلیل ہے اور اسکے لئے کوئی دلیل نہیں۔ شوافع کے یہاں بھی دو روایتیں ہیں ایک یہ کہ بالغہ و نابالغہ ہردو کے مس سے وضوء ٹوٹتا ہے۔ دوسرے یہ کہ صرف بالغہ سے ۔ پس پہلی روایت کے بموجب اسکا کیا جواب ہوگا کہ آنحضرت ﷺ نے امیمہ بنت رقیقہ کو حالت نماز میں اُٹھا کر نماز پڑھی اور سجد ہ میں جاتے وقت اُتار دیتے اور بوقت سر اٹھانے کے پھر اٹھالیتے۔ ظاہر ہے کہ وہ کسی غلاف میں نہ تھی۔ غرض لمس مراۃ سے وضوء ثابت کرنا بظاہر بے وجہ ہے اور لامستم النساء سے لمس بالیدسمجھنا بھی بعید معلوم ہوتا ہے باقی اقوالِ صحابہ ؓکا پیش کرنا شوافع سے بعید ہے اور اگر کریں بھی تو حدیث کے سامنے وہ قابل حجت نہیں۔
باب نبیذ التمر
نبیذ کی ایک حالت وہ ہے کہ تمر پانی میںتر ہوں لیکن اب تک شیرینی اور اجزاء تمر پانی میں نہ آئے ہوں ۔ اس سے بالاجماع وضوء جائز ہے اور ایک حالت وہ ہے کہ اجزاء تمر پانی میں مل گئے ہوں اور پانی کی رقیت جاتی رہے اس سے بالاجماع وضوء ناجائز۔ تیسری حالت یہ ہے کہ تمر کی شیرینی پانی میں آکر مثل شربت خفیفہ ہوگیاہو۔ اس سے صرف امام صاحب ؒ جائزکہتے ہیں اور دیگر ائمہ اور جمہور قائل نہیں ہیں مگر ظاہر ہے کہ امام صاحب ؒ حدیث کو لئے ہوئے ہیں اور دوسرے حضرات یہاںقیاس سے حدیث کو چھوڑتے ہیں گو حدیثِ قوی تاہم قیاس سے بہتر ہے پس اسکو قابلِ عمل نہ سمجھنا بعید ہے اور لیجئے حدیث جو خبر واحد ہو عند الشافعیہ تو مخصص بھی ہوسکتی ہے گو عند الحنفیہ مفسر سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ پس ممکن ہے کہ لم تجدوامائًکے لئے مخصص ہوجائے۔ اور واقع میں جب نبیذ موجود ہو تو لم تجدوا صادق نہ آئے گا ۔ باقی رہی جہالتِ راوی اسکا جواب حنفیہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ مجہول نہیں ہیں اور کیا ضرورت ہے کہ عندالترمذی وغیرہ مجہول