قوم نے امام کو غلطی پر مطلع کرنا چاہا اور امام نے قوم کو غلطی سے بچایا کہ تم مجھ کو کیا آگاہ کرتے ہو اب تم خود غلطی کررہے ہو کھڑے ہوجاؤ فرائض میں رکعتین کے بعد بلاقعدہ اگر سیدھا کھڑا ہوگیا تو پھر نہ لوٹے سجدہ سہو کرے۔ بعض فقہاء حنفیہ نے لکھدیا ہے کہ نماز ہی فاسد ہوجائے گی کہ فرض سے واجب کی طرف لوٹ گیا۔ لیکن اس پر فتویٰ نہیں صحیح یہی ہے کہ اگر لوٹ بھی گیا تو نماز فاسد نہ ہوگی مقدار تشہد سے زیادہ ٹھیرنا نہ چاہیے۔ چنانچہ درود پڑھنے سے سجدہ سہو واجب ہوجاتا ہے۔
باب التصفیق
ہاتھ پر ہاتھ مارنے کو تصفیق کہتے ہیں خواہ بہ بطون الاکف ہو یا بہ ظہور الاکف یہاں یہ مطلب ہے کی ید یمنی کے باطن کو یسُریٰ کے اوپر مارے للنساء اور للرجال کا یہ مطلب نہیں کہ خلاف کرنے میںنماز فاسد ہوجائیگی۔ مطلب یہ ہے کہ مسنون و اولیٰ یہ ہے کہ عورتیں تصفیق کریں اور مرد تسبیح۔
باب صلٰوۃ القائم والقاعد والنائم
پہلی حدیث کے معنیٰ بعض علماء تو یہ بیان کرتے ہیں کہ نائمًا کی صورت اس کے لئے جو نہ پورا تندرست ہو نہ بیمار ، بین بین حالت ہو۔ پس اسکو جائز ہے کہ لیٹ کر پڑھے کیونکہ وہ من وجہٍ بیمار بھی تو ہے تندرست کے لئے جائز نہیں اور بہتر یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ یہ آپ ﷺ صرف ترغیب اور حث القیام وغیرہ کے لئے فرماتے ہیں کہ دیکھو قائم کا اس قدر ثواب ہے اور قاعد کا اس سے کم اور نائم کا اتنا کم ہے اور قاعد کا بہ نسبت اسکے زیادہ ثواب ہے پس حتی الامکان زیادہ ثواب حاصل کرو یہ نہ ہو کہ ہمت ہارو پس یہاں ثواب اصلی بیان فرمانا مقصود ہے یہ جدا بات ہے کہ ممکن ہے کہ مریض کو عذر کی وجہ سے خدا تعالیٰ قائم سے بھی زیادہ ثواب عطا فرمادے ہاں اصلی ثواب واجر قیام وقعود کی نسبت ومقدار یہی ہے جو بیان کی گئی، بیمار کے قعود سے اسکے قیام میں دو چند ثواب ہوگا۔ اور قعود مریض میں بہ نسبت اسکی اضطجاع کے مضاعف ثواب ہوگا۔ غرض انکو بیماری وصحت وفرض ونفل سے بحث نہیں آپ ﷺ مطلق نسبت اجر برائے ترغیب وتحریص بیان فرماتے ہیں۔
باب التطوع جالسًاالخ
حضرت عائشہ ؓ کی دونوں قسم کی حدیث کو متعدد حالتوں پر حمل کیا ہے کہ کبھی ایسا ہوہوگا اور کبھی اس طرح اور بہتر جمع یہ ہے کہ اسکو ایک ہی نماز کا حال لیا جائے جس جگہ وہ رکوع سے پہلے قیام نہ کرنے کو فرماتی ہیں تو مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ رکوع کے لئے قیام نہ کرتے تھے کیونکہ بظاہر قیام للرکوع اسکو کہتے ہیں جو متصل بھی ہو ۔ آپ ﷺ تو چالیس