اس میں بُعد عن النساء بھی ہے اور اتصال بالامام بھی لہٰذا فضیلت زیادہ ہوگئی۔ ـصف منقطعہ میں فقہاء کے اقوال مختلف ہیں مگر راجح یہ ہے کہ صف متصل بالامام کوفضل زیادہ ہے گو منقطعہ ہو۔
قرار حجت ملزمہ نہیں البتہ ترجیح احد المتساویین کے لئے کافی ہے چنانچہ سب واقعے اسی قسم کے ہیں جو احادیث میں وار د ہیں۔
باب الصف بین السواری
چونکہ انقطاع ہوجاتا ہے لہٰذا ممانعت ہے جب تک وسعت ہو اس سے احتراز کرے۔ مولانا محمد یعقوب صاحب ؒ کی رائے تھی کہ ستونوں کے درمیان میں مکروہ نہیں کیونکہ یہاں انقطاع نہیں وہ مکان علیٰحدہ علیٰحدہ ہیں۔
باب الصلوٰۃ خلف الصف وحدہ
اعادہ کا حکم فرمانے سے بطلان ثابت نہیں ہوتا کیونکہ ترک مسنونات مؤکدہ سے ....اعادہ مسنون ہوتا ہے جیسے ترک واجبات سے اعادہ واجب ہے متی ما امکن تنہا نہ کھڑا ہو ۔ کسی کو صف اولیٰ میں سے پیچھے ہٹالے حدیث میں یہ حکم صاف موجود ہے البتہ بوجہ شیوع جہل متأخرین نے حکم دے دیا ہے کہ ضرورۃً تنہا بھی کھڑا ہوجائے۔ ممکن ہے کوئی ناواقف خفا ہوجائے اور ردّو بدل کی نوبت آکر نماز فاسد ہوجائے۔
باب یصلی و معہ رجلٌ
دائیں طرف برابر کھڑا کرلے۔ ہونا تو برابر چاہیے لیکن چونکہ برابر ہونے میں تقدم عن الامام کا اندیشہ رہتا ہے لہٰذا احتیاطًا ذرا پیچھے رہے۔
باب احق بالامامۃ
چونکہ اس زمانہ میں أقرأ اور أعلم کا مصداق ایک ہوتا تھا۔ لہٰذا آپ ﷺ نے أقرأ فرمایا۔الا باذنہ کو بعض نے صرف لایجلس سے استثنا کہا ہے چنانچہ اسی کے موافق امام ترمذی نے دونوں قول علماء کے لکھے ہیں ۔ لیکن ظاہر اول ہے امام معین اگرچہ أقرأ اور أعلم نہ ہو،تاہم دوسرے کو بلا اجازت امام نہ بننا چاہیے۔
باب تحریم الصلوٰۃ وتحلیلھا
حرمتِ افعال تکبیر سے اور حلّت تسلیم سے ثابت ہے اب یہ تو متفق علیہ ہے کہ تکبیر محرم ہے البتہ سلام میں جھگڑا ہے کہ یہ ضروری ہے یا نہیں شافعی ؒ خروج بالسلام کو فرض مانتے ہیں اور امام صاحب واجب۔ امام صاحب ؒ فرض صرف خروج