مرأۃ کی ذات میں کوئی کراہت و فساد نہیں کیونکہ کراہت اگر اصلی اور ذاتی ہوتی تو حالت اغتراف جمیعًا میں بھی باقی رہتی تو معلوم ہوا کہ غرض اصلی احتراز عن الوسواس ہے، پس جس وقت ساتھ ساتھ وضو ہوگا تو آنکھ کے سامنے استعمال ہوگا اور عورت کی نفاست و نجاست معلوم رہے گی اور اگر غیبت میں عورت نے وضو کیا ہے تو اسکو طرح طرح کے شبہات پیدا ہونگے کہ خدا جانے ہاتھ پاک تھے یا ناپاک مرد کو یا چھینٹیں پڑیں یا کیا ہوگا۔ القصہ ذات ماء میں کچھ کراہت نہیں بلکہ صرف قطع وسواس کی غرض سے ممانعت ہے۔ اگر کسی کاقلب خالی عن الوسواس ہو تو بلا کراہت فضالۂ مرأۃ سے وضوء جائز ہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ کے افعال سے ثابت ہے اور صحابہ کے زمانہ میں ایسے متعدد قصے منقول ہیں۔
باب الماء لایُنجسّہ شیٔ
پانی کے بارہ میں اصلی مذہب تین ہیں۔ ایک تو اہل ظواہر اور ایک دو صحابہ کا وہ یہ ہے کہ پانی پاک ہے اور ہرگز نجس نہیں ہوتا خواہ قلیل ہو یا کثیر اور تغیر اوصاف ہو یا نہ ہو اور بظاہر حدیث الماء طہور اسی مذہب کی پوری مؤید ہے۔ دوسرا مذہب امام مالک کا ہے وہ اسی مطلق مذہب میں اتنی اور قید لگاتے ہیں کہ مالم یتغیریعنی پانی خواہ قلیل ہو یا کثیر جب تک تغیر اوصاف نہ آوے وقوع نجاست سے ناپاک نہیں ہوتا۔ پس ایک دو پیالہ پانی میں قطرۂ بول سے نجاست نہ آئے گی الا بعد تغیر بوجہ نجاسۃ۔}یعنی تغیر بھی نجاست کی وجہ سے آیا ہو نہ کہ مطلق تغیر۔۱۲{تیسرا مذہب ایک اور قید زائد کرتا ہے وہ یہ کہ پانی کثیر ہو وقوع نجاست سے ناپاک نہ ہوگا جب تغیر اوصاف نہ ہو۔ یہی مذہب ہے امام صاحب ؒ اور امام شافعی ؒ کا ۔ مذہب اول قید تغیر وعدم تغیر اور قلت و کثرت سے بری تھا دوسرے مذہب میں ایک قید عدم تغیر اوصاف کی لگی۔ تیسرے مذہب میں تغیر کے ساتھ کثرت و قلت کی بھی قید لگی۔ الغرض اس وسعت میں اب تنگی شروع ہو کر تیسرا مذہب یہ ہوا کہ جب تک احد الاوصاف نہ بدلیں ماء کثیر وقوع نجاست سے ناپاک نہیں ہوتا پہلے مذہب میں حضرت عائشہ ؓ بھی شریک معلوم ہوتی ہیں۔ مذہب ثانی یعنی امام مالک ؒ کی مؤید وہ حدیث ہے جس میں اس روایت کے الفاظ کے ساتھ اتنا اور بھی ہے الا ما غیر لونہ وطعمہ لیکن اس جملہ کی اسناد میں ضعف ہے باقی روایت بلاشبہ صحیح ہے۔ اس روایت کا جواب اہل مذہب ثالث دو طرح پر دیتے ہیں۔ اول یہ کہ اصل یہ ہے کہ الف لام عہد خارجی کے لئے ہو۔ جب کبھی عہد خارجی نہ بن سکے تب جاکر استغراق یا عہد ذہنی کے لئے ہوتا ہے ۔ پس مذہب ثالث کے مخالف یہ روایت جب ہو کہ الف لام کا استغراق کے لئے مانا جائے۔ یہاں پر الف لام اپنی اصل کے موافق عہد خارجی کے لئے ہے اور خاص بیر بضاعہ کا پانی مراد ہے اگر استغراق لیں تو بعض روایات مثلاًغسل الیدین للمستیقظ کے معارض ہوگی۔ الغرض مراد یہاں خاص ماء بیربضاعہ ہے ۔ لیکن اس قدر جواب سے شوافع کی طرف سے تو جواب تام ہوتاہے حنفیہ کی طرف سے ابھی جواب پورا نہیں ہوا اس لئے کہ شافعی ؒ تو