بالکل معین تھا بخلاف عشر کے کہ وہاں اس اندازہ میں کمی بیشی ہوجائے تو کچھ حرج نہیں وہاں توصدقہ ہے امام وعامل کسی حق معین کے مالک نہیں تملیک کے بعد فقراء مالک ہوتے ہیں۔ فاحفظ ہذا الفرق۔
باب السوال والصدقۃ
اس بارہ میں چونکہ بہت ہی مختلف روایات ہیںکسی میں خمسون درہما پر سوال کو جرم فرمایا ہے اور کسی میں قوت یوم پر اور کہیں ذی مرۃ سوی (یعنی قوی) کو اورپھر آپ نے ایک ذی مرۃ سوی (یعنی اچھے خاصے تندرست ) سائل کو دے بھی دیا اس سے جواز معلوم ہوتاہے۔ اس اختلاف پر نظر کرکے بہتر یہ ہے کہ کہاجائے کہ حرام سے مراد حرام خبیث نہیں بلکہ حرام دون حرام کے قاعدہ کی بموجب مطلب یہ ہے کہ ذی فقر مدقع کو سوال بالکل جائز اور قوی مکتسب (یعنی ذی مرۃ سوی) کو بہتر نہیں۔ اورپچاس درہم والے کو بہت برا ہے البتہ ضرورت میں اس کو بھی جائز ہے کیونکہ حالات لوگوں کے مختلف ہوتے ہیں۔ بعض تو قوت یوم ہی سے فارغ البال ہوجاتے ہیں اور بعض بوجہ اہل وعیال یادیگر وجہ کے پچاس درہم کے بعد بھی محتاج رہتے ہیں۔ سادات کو زکوٰۃ لینی بہتر نہیں گو جواز کا فتویٰ ہے۔
ابواب صدقۃ الغارم
لیس لکم الا ذلک سیعنی بالفعل یونہی لے لو پھر ہوگا تو وصول کرلینا۔ مفلس میں امام صاحب کا یہی مذہب ہے حق المال سوی الزکوٰۃ مثلا باپ بھائی اگر مفلس ہوں تو ان کا نفقہ بشرطیکہ اس کوو سعت ہو واجب ہے، بخلاف اولاد صغار اور زوجہ کے جن کا نفقہ ہر حالت میں واجب ہوتاہے وسعت ہو یا تنگی ہو۔
باب وصال صوم شعبان
صوم شعبان کی فضیلت مقید ہے شعبان کے ایام اخیرہ کے علاوہ کے ساتھ۔ یہ نہیں کہ تمام شعبان میں جب کبھی روزہ رکھے افضل ہوں۔ سلف صالحین صفات باری کو متشابہات کہہ کر کہتے ہیں کہ ہم نزول ویدو وجہہ سب پر بلا کیف ایمان لاتے ہیں۔ جہمیہ انکار کرتے ہیں کہ اس سے تو تشبیہ خالق بالمخلوق لازم آتی ہے اور قرآن میں جوکچھ صفات مذکور ہیں وہ مجازا ہیں۔اہل سنت میں سے جو مجازی معنی بیان کرتے ہیں وہ حقیقی معنی کا ہرگز انکار نہیںکرتے۔ بخلاف جہمیہ کے جو حقیقۃ کاانکار کرتے ہیں۔ اہل سنت نے صرف صیانت عقائد عوام کے لیے مجازی معنی بیان کئے ہیں ورنہ وہ حقیقت پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور بلاکیف مانتے ہیں۔
باب