آپ ﷺ کا ایلاء شرعی نہ تھا بلکہ آپﷺ نے ایک ماہ کی قسم کھائی تھی پس یہ لغوی ایلاء تھا آپﷺ نے پورا فرمایا۔ کفارہ وغیرہ واجب نہ ہوا۔ اس صورت میں اگر مدت قسم کو پورا کردیا تو کفار ہ نہ ہوگا اور اگر قسم کو توڑ ڈالا کفارہ واجب ہے۔ ایلاء شرعی چار ماہ کا ہے ۔ اسمیں اختلاف ہے ۔ شوافع وغیرہم کہتے ہیں کہ چار ماہ کے بعد زوج کو اختیار ہوتا ہے خواہ طلاق دیدے یا روک رکھے۔ حنفیہ کے نزدیک چار ماہ گذرنے پر خود بخود بائنہ ہوجاتی ہے کفار ہ نہیں آتا ہاں چار ماہ کے درمیان اگر نقض یمین و رجعت کرے تب کفارہ آتا ہے یہ رجعت معتبر ہوگی اور قسم کان لم یکن ہوجائیگی ۔وہو قول الثوری ۔ آیت ایلاء سے ہر ایک کا مدعا بادنیٰ تاویل ثابت ہوتا ہے۔
باب اللعان
امام صاحب فرماتے ہیں کہ مقاسمہ کے بعد تفریقِ حاکم وقاضی ضروری ہے چنانچہ حدیث میں بھی فَرَّق بینہما آتا ہے اسکے علاوہ بعض روایت میں ہے کہ ایک شخص نے بعد مقاسمہ کے عرض کیا کہ یا حضرت ہم دونوں نے قسمیں کھائیں کسی کا کذب معلوم نہیں ہوا میں اسکو رکھنا نہیں چاہتا اور تین طلاقیں دیدیں اور آنحضرت ﷺنے منع نہیں فرمایا۔ معلوم ہوا اسوقت تک وہ اسکی زوجہ ہی تھی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ طلقات ثلٰثہ دفعۃً واحدۃً جائز ہیں۔ وہو قول الحنفیہ ۔ شوافع فرماتے ہیں کہ محض لعان موجبِ فرقت ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ مقاسمہ زوجین کے بعد فورًا فرقت ہوجاتی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ عورت کی قسم سے پہلے ہی صرف مرد کی قسم پر تفریق ہوجاتی ہے۔ ’’والعمل علی ہذا ‘‘ کہنا ظاہر ہے کہ الحاق ولد بالام کی نسبت تو درست ہے۔
باب متوفی عنہا زوجہا
کو چاہئے کہ ایک خاص مکان میں رہے خواہ وہ اس کو میراث زوج سے ملا ہو یا کسی اور طرح سے اس کی ملک میں ہو، ہاں زوج اور ورثاء زوج کے ذمہ پر اس کا نفقہ وسکنیٰ نہیں ۔ دن میں نکلنا اپنی حوائج کے لئے درست ہے۔
باب ترک الشبہات
جن امور کاحلال وحرام ہونا مشتبہ ہو ان کا ترک ضروری ہے ورنہ مفضی الی الحرام ہوتا ہے۔ چنانچہ آپﷺ نے مثال دیکر واضح فرمایا، اس لئے ائمہ اور مجتہدین کافرض ہے کہ جو امور بین الحلال والحرام ہوں ان میں اس کی ضرور رعایت فرماویں۔ اصول مسلم ہے کہ مبیح ومحرم کے تعارض میں محرم کو ترجیح ہوتی ہے۔