سفر کا اتفاق ہوا۔ اور قبیل طلوع بیدار ہوئے اتنا وقت نہ تھا کہ وضو بھی کریں اور نماز بھی بفراغت ادا ہوجائے۔، خیروضو تو جلدی جلدی کرلیا اور امام ابویوسف ؒ کو امام بنایا اور آفتاب گویا اب نکلا اور اب نکلا۔ پس امام ابو یوسف ؒ نے صرف فرائض صلوٰۃ ادا کرکے نماز تمام کردی سنن و واجبات سب چھوڑ دیئے تو نماز قبل طلو ع ادا ہوگئی امام صاحب ؒ نے فرمایا صار یعقوبنا فقیھًایعنی اگر چہ اعادہ کی نوبت وضرورت پیش آئے گی لیکن فضیلت وقت تو ہاتھ سے نہ گئی۔ ایسے ہی یہاں ایک روایت کی رو سے ادا ہوگئی گودوسرے کی تصریح سے قضا ہوئی ہے بخلاف اسکے کہ پھر کسی وقت ادا کرتا کیونکہ اسمیں کسی طرح بھی ادا نہ ہوتی قضائے محض رہتی اسی قسم کی رائے امام صاحب ؒ کی مغرب میں ہے یعنی اصل وقت تو حمرۃ تک ہے لیکن چونکہ لغت میں اس بیاض بعد الحمرۃ کو بھی شفق کہتے ہیں پس جس نے اس وقت تک نماز نہ پڑھی ہو مغرب ادا کرلے کیونکہ باعتبار ایک معنیٰ کے اب بھی وقت باقی ہے گو باعتبار اس دوسرے معنیٰ کے وقت نہ رہا ہو بخلاف تاخیر الی بعد البیاض کے کہ اس میں کسی وجہ اور کسی معنیٰ سے بھی ادا نہ ہوگی۔ اور عشاء کو بھی قبل غروب البیاض نہ پڑھے کیونکہ ایک معنیٰ سے گو ادا ہوجائے گی مگر دوسرے معنیٰ کے اعتبار سے قبل الوقت اور ضائع ہونے کا خوف ہے۔
الحاصل عصر میں امام کی وسعتِ نظر اور احتیاط کی وجہ سے سب کا خلاف کرنا پڑا اور یہاں بوجہ اشتراک لفظ اور رعایت جانب احتیاط کے امام کو دیگر حضرات سے علیٰحدہ رہنا پڑا۔ الغرض امام کا اصلی قول تو وہی ہے جو سب علماء کا ہے چنانچہ وہی صاحبین کا قول ہے اور وہ ایک روایت امام سے مشہور ہے۔ دوسرا قول جو ظاہر الروایۃ اور مذہب مشہور یہ ہے کہ دو مثل تک ظہر پڑھ سکتا ہے عصر نہ پڑھے جسکی وجہ مذکور ہوئی۔ تیسرا قول یہ ہے کہ ایک مثل کے بعد نہ ظہر پڑھے نہ عصر۔
باب وقت المغرب
تعجیل بالاتفاق اولیٰ ہے لیکن یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام شافعی ؒ وقت مستحب بقدر ثلاث یا خمس رکعات فرماتے ہونگے نہ مطلق وقت۔ باقی حدیث جبرئیل چونکہ مقدم اور حسن ہے وہ دوسری روایات مؤخر و صحیح کا مقابلہ نہیں کرستکی۔
باب کراہت النوم الخ
نوم قبل العشاء بخوف فوتِ جماعت عشاء اور سمر بعد العشاء بخوف فوت صلوٰۃ صبح مکروہ ہے۔ البتہ عبادت کی قوت اوعانت کے لئے جائز ہے چنانچہ رمضان میں لاسمر الالمصلِ اومسافرغرض اس سے یہ ہے کہ مقصود بالذات سمر نہ ہو اور اسکے لئے وقت ضائع نہ کرے چنانچہ مسافر قطع مسافت بھی کرتا رہے اور قصّہ گوئی بھی تو اسکا مستقل وقت سمر میں صرف نہ ہوگا اور اگر بعد العشاء بھی ہو تو مسافر کو تو بیدار ہی رہنا مقصود ہوتا ہے۔ اور مصلی منتظر صلٰوۃ بھی اپنا وقت اسی طرح گزار دے تو جائز ہے۔