باب فضل اوّل الوقت
افضل الاعمال فرمانے کی تاویل یا تو یہ کہ من افضل الاعمال مراد ہے اب کچھ تعارض نہیں رہتا یا یہ کہ اس بارہ میں یہ افضل الاعمال ہے یا خاص سائل کے لئے یہ افصل الاعمال ہے جسے مناسب آپ نے جو نسا عمل سمجھا اسکے لئے افضل الاعمال فرمایا پس افضل الاعمال کی روایات میں تعارض نہ رہا۔ حدیث علی ؓ میں جو لا تؤخّرھا فرما یا ہے یا تو اسکا یہ مطلب ہے کہ جب نمازکا وقت مستحب آجائے تب تاخیر نہ کرو۔ یا یہ کہ یہاں سے تو علی اطلاقہ عدم تاخیر کا حکم لیاجائے لیکن دوسری روایت سے صبح و مغرب و عشاء میں تخصیص کرلی جائے اور یہ حال ہے روایت شیبانی یعنی الصلوٰۃ لمواقیتھا کا غرض آپ ﷺ کا اول وقت کے فضائل فرماناابردوا اوراسفروا کے معارض نہیں کیونکہ اسمیں جو ذاتی فضیلت ہے وہ مسلم لیکن ایک عارضی وجہ دفعِ حرج اور کثرت جماعت ایسی آگئی کہ وہ اسے بھی فضیلت میں بڑھ گئی۔ چنانچہ بیان ہوچکا کہ امام صاحب ؒ بھی اصل تغلیس و تعجیل ہی کو سمجھتے ہیں، البتہ بوجہ اختلاف زمانہ اسفار کو مستحب سمجھتے ہیں۔ جناب رسول ﷺ کے عملدرآمد اور روایت سے تغلیس ثابت ہے کیونکہ اسوقت کے لوگ مسرعین الی الطاعۃ اور مقدمین فی العبادۃ تھے اس زمانہ کی عورتیں بھی بہت جلد صبح کو حاضر ہوجاتی تھیں مردوں کا تو کیا کہنا ہے لیکن چونکہ وقتِ نوم و غفلت تھا اور جناب سرور کائنات ﷺ کے روبرو آئندہ زمانہ کی حالت پیش نظر تھی۔ لہٰذا اسفرو بالفجرکا امر فرمایا۔ پس نہ قول و فعل میں تعارض ہے نہ احادیث افضیلت اوّل وقت اور استحباب تاخیر میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اس مصلحت کو خوب سمجھتے تھے۔ چنانچہ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں بہ نسبت عہد نبوی ﷺ ذرا تاخیر سے نماز ہوتی تھی۔ عشاء میں تاخیر اس لئے مستحب ہے کہ تاکہ تمام اموردنیاوی سے فراغت کرکے نماز اداکرے اور خاتمہ عبادت پر ہو کیونکہ النوم اخ الموت ورنہ بعد عشاء کاروبار مصروف ہوجائیگایا سمر میں وقت کھودے گا اور خاتمہ عبادت پر نہ ہوگا۔
حدیث عائشہ ؓ میں جو تاخیرصلٰوۃ مرتین کی نفی ہے اگر اسکو تحدید و شمار کے لئے لیا جائے جیسا کہ تمام شراح لیتے ہیںتو وہی مشہور جواب ہے کہ ایک دفعہ کی حضرت عائشہ ؓ کو خبر نہ ہوئی ہوگی کیونکہ امامت جبرئیل کے وقت آپ ؓکی عمر بہت کم ہوگی اور بعد ازاں کسی سے اس واقعہ کے سننے کا اتفاق نہ ہوا۔ انہوں نے صرف اس واقعہ تعلیم اعرابی کی خبر پائی اور دو دفعہ کی نفی فرمائی۔ یعنی صرف ایک دفعہ آخر وقت میں پڑھا ہے باقی اور مواقع سفر و جہاد میں جو تاخیر اور جمع بین الصلواتین کی نوبت ئی۔ اسکا جواب یہ صاحب یو ں دیں گے کہ عائشہ ؓ اس تاخیر کی نفی فرماتی ہیں (اس جگہ سے) جو پنجگانہ نماز میں متواتر واقع ہوئی ہو پس ایسی تاخیر صرف دو ہی دفعہ واقع ہوئی ہے اسمیں سے ایک مرتبہ کی خبر نہ پائی لہٰذا ایک سے زیادہ کی نفی فرمارہی ہیں اور بہتر یہ ہے کہ مرتین کو تقلیل کے واسطے لیا جاوے پس مطلب یہ ہوگا کہ آپ نے تمام عمر میں نماز کو دو