کے چھتیس خود میری طرف سے گئے اور پچیس تم دو ۔ اسی طرح برابر حساب کر لیں (مثلا بنت مخاض اگر کا تھا تو تو چھتیس والا ادا کرے اور پچیس کا مالک دے اور بنت لبون اگر کا تھا تو لہ چھتیس والا دے اور پچیس کا مالک ادا کرے )زکوۃ البقر میں کسی کوخلاف نہیں ۔
باب صدقۃ الزرع
زرع جب تک پانچ وسق نہ ہو دیگر ائمہ کے نزدیک عشر واجب نہیں ہوگا امام صاحب مطلقا ما اخرجت الارض میں عشر واجب فرماتے ہیں یہ جواب ناقص ہے کہ چونکہ لفظ ما عام ہے لہذا سب میں عشر کو فرماتے ہیں بلکہ لیس فیما دون خمسہ اوسق دربارہ زکوۃ تجارت فرمایا گیا ہے ۔ اس وقت وسق سے دادوستد ہوتی تھی اور وسق اس وقت غالبا چالیس درہم کی قیمت کا ہوتا تھا اس حساب سے آپ نے پانچ وسق پر زکوۃ کو فرمایا کیونکہ پانچ کی قیمت دو سو درہم ہیں جو دس درہم سات دینا رکے ہموزن ہوں اور سات دینار ساڑھے سات مثقال کے ہوتے ہیں ایک درہم تین ماشہ سے کچھ زیادہ کا ہوتاہے ساڑھے تین ماشہ نہیںہوتا ۔ عبیدہ خدمت میں بالاتفاق زکوۃ واجب نہیں ۔
باب
عسل میں بعض کے نزدیک صدقہ ہے عندالبعض نہیں۔ پھر بعض دس سے کم میں نہیں کہتے۔ کما قال الصاحبین اور بعض مطلقا کہتے ہیں ومنہم ابوحنیفۃ ۔ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ فی عشر ازق زق حساب کے لیے ہے کہ اس حساب سے دیا کرو نصاب نہیں بتلاتے۔
باب المال المستفاد
اگر پہلے سے مال ہی نہ تھا یا نصاب سے کم تھا تو بالاتفاق زکوٰۃ جب سے واجب ہوگی جب سے کہ نصاب تام کا مالک ہوا ہے۔ اور اگر نصاب موجودہ ہی کے ربح اور نتائج سے مستفاد ہوا تو حولان حول میں اصل نصاب کے تابع ہوگا بالاتفاق۔ اور اگر نصاب موجودہ کے نتائج وثمرات سے یہ مال مستفاد نہیں ہے تو امام صاحب اس کو بھی تابع نصاب موجودہ فی حولان کہتے ہیں شوافع اس کو تابع نہیں کہتے۔ یحول علیہ الحول کی روایت اس کے خلاف نہیں کیونکہ اس میں تبعا اورحکما حولان ہوگیاچنانچہ نتائج نصاب موجودہ میں شوافع بھی مانتے ہیں۔
باب زکوٰہ الحلیٰ
اس بارہ میں جس قدر روایات ہیں حنفیہ کے موافق ہیں۔ شوافع ان روایات میں ضعف کا حیلہ کرکے سب کو چھوڑتے ہیں۔