ہے کہ ترک صلوٰۃ پہلے تھا بعد کو نماز پڑھی جانے لگی ۔ پس اس طرح پر ناسخ ومنسوخ ہونگی۔ایک قبر میں چند میّت رکھنی جائز ہے ۔ فقہاء کہتے ہیں کہ اگر انکے درمیان میں اور کچھ کپڑا وغیرہ حائل نہ ہو تو مٹی ہی درمیان میں حائل کردیں اور اعلم و افضل کو متصل الیٰ القبلۃ اور مقدم رکھیں اور نماز جنازہ میں اعلم کو متصل بالامام کریں۔
باب الصلٰو علی القبر
جس شخص کی نماز پڑھی گئی ہو اور دفن کیا گیا ہو اسکی صلوٰۃ علی القبر عند الجمہور جائز نہیں بعض مجتہدین جائز کہتے ہیں اور جو شخص بلا صلوٰۃ دفن کردیا گیا ہو اسکی صلوٰۃ علی القبر بالاجماع جائز ہے لیکن مدت میں خلاف ہے یعنی یہ سب کہتے ہیں کہ جب تک نعش میں فساد نہ آیا ہو تب تک جائز ہے پس بعض نے ایک ماہ لیا جیسے آنحضرت ﷺ نے ایک ماہ بعد پڑھی اور یہ سب سے زیادہ مدّت ہے ۔ بعض نے دس روز لئے ہیں۔ وقدر بثلثۃِ ایام مگرقبر ام سعدؓ اور جسکی نسبت قبراً منتبذاً آتا ہے یہ دونوں واقعے ایسے ہیں جن میں پہلے نماز پڑھی جاچکی تھی۔ یہ آپﷺکی خصوصیت پر محمول ہوگا۔
باب الصلٰوۃ علی النجاشی
ائمہ کے اس مسئلہ میں دو فریق ہیں ایک تو صلوٰۃ علی الغائب کو ناجائز فرماتے ہیں انہیں میں سے امام صاحب ہیں۔ اس واقعہ کو آپﷺکی خصوصیت یا احضار جنازہ وکشف الجنازہ پر حمل کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابن عباسؓ کی روایت سے بھی یہی ثابت ہے ۔ دوسرا فریق جائز کہتا ہے اور اسی واقعہ صلوٰۃ علی النجاشی سے استدلال کرتا ہے۔ امام صاحب کی اصل اور انکا کلیہ صلوٰۃ جناز میں یہ ہے کہ جنازہ سامنے ہو اور دعاء کی جائے۔ پس اگر جنازہ غائب ہو یا فاسد ہوگیا تو جائز نہ ہوگا اور خلاف اصل ہوگا۔ اب اس کلیہ کے مخالف جو کوئی واقعہ جرئیہ ہو اسکی تاویل کرنی بہتر ہے چنانچہ صلوٰ ۃ علی النجاشی میں اگر کشف واحضار جنازہ کی تاویل کی جائے تو یہ واقعہ صلوٰۃ علی الغائب میں داخل ہی نہ ہوگا یا مثال دیگر جزئیات مثل صلوٰۃ علی قبر ام سعدؓ وغیرہ کے اسکو بھی آپﷺکی خصوصیت سے سمجھا جائے۔ اسی طرح تکرار خلاف اصل ہے۔
باب القیام للجنازۃ
یا تو فرعًا للموت تھا یا تعظیم للحق یا تعظیم للملٰئکۃ چنانچہ آپﷺیہودیہ کے لئے بھی کھڑے ہوگئے تھے۔ بعض نے اسمیں کہا کہ آپﷺاس لئے کھڑے ہوگئے تھے تاکہ یہودی کا جنازہ سر مبارک سے اُونچا ہو کر نہ جاوے لیکن اب قیام للجنازہ میں کوئی چیز نہیں رہا منسوخ ہوگیا (واکثر المذاہب ذکرھا الترمذی في ھذا الباب)
باب اللحد والشق