گا۔ اس سے جمہور کا مذہب جو زراعت فی ارض غیر میں ہے ثابت ہوتاہے کہ زراعت صاحب بذر کی ہوگی۔ احیاء ارض سے مالک ہوجانے میں خلاف نہیں اختلاف اس میں ہے کہ اذن امام بھی شرط ہے یا نہیں؟ امام صاحب شرط فرماتے ہیں دیگر حضرات نہیں کہتے۔ طبرانی وغیرہ صحاح میں روایت آتی ہے کہ ارض میں تصرف بغیر اذن امام کے نہیں چاہئے وہ حنفیہ کے مؤید ہے اور قیاس وقاعدہ بھی یہی چاہتاہے کہ اذن امام ضروری ہو کیونکہ اس زمین میں جملہ مسلمین کا استحقاق مساوی تھا کہ اس سے منتفع ہوں اب ایک کو اپنے لئے تخصیص کرلینی جائز نہ ہونی چاہئے امام کو اختیار ہے۔
باب المزارعۃ
جمہور اور ائمہ اورحنفیہ وشافعیہ مزارعۃ ومساقاۃ کو جائز کہتے ہیں لیکن امام شافعی اور ابوحنیفہ مزارعت کو دونوں بالاتفاق ناجائز فرماتے ہیں اور مساقاۃ کو صرف امام صاحب ناجائز کہتے ہیں ان کے موافق روایت نہی عن المخابرۃ ہے۔ یہ روایت قاعدہ کلیہ ہے اور اس کے مقابل روایت فعل جزئی ۔ علاوہ ازیں اس قاعدہ میں ممانعت ہے اور فعل سے اباحت معلوم ہوتی ہے پس ممانعت کی روایت اولیٰ ہوگی، جمہور کے اور بھی استدلالات ہیں مگر اقویٰ یہ روایت باب ہے۔
امام صاحب فرماتے ہیں کہ یہ تو خراج مقاسمہ ہے مخابرہ اور مزارعۃ نہیں ہے۔ جس روایت میں اجارہ کی بھی ممانعت معلوم ہوتی ہے وہ منسوخ ہے یااستحباب پر محمول ہے۔ رافع بن خدیج کی روایات بیشک سند ا ومتنا مضطرب ہیں بعض سے مزارعۃ واجارہ دونوں کا عدم جواز ثابت ہوتاہے، بعض سے صرف مزارعۃ کا، بعض سے صرف اس صورت کا کہ مالک کسی خاص قطعہ کو یا قرب انہار کو اپنے لئے خاص کرلے عدم جواز معلوم ہوتاہے اس اضطراب کی وجہ سے بعض نے ان کی روایات کو بالکل چھوڑدیا ہے اور متعدد صحابہ وتابعین کے مزارعہ کرنے کو ثابت کرتے ہیں مگر یہ بھی ہے کہ بعض صحابہ اس کو نہیں کرتے تھے اور ناجائز سمجھتے تھے۔
ابواب الدیات
مقدار دیت بالاتفاق سو ابل ہیں۔ تقسیم انواع میں کچھ خلاف ہے جس طرح اس روایت میں تقسیم ہے امام صاحب اس کو لیتے ہیں۔ عمدو شبہ عمد میں اقسام کردئیے ہیں تاکہ تشدید ہوجائے، دراہم سے دیت بارہ ہزار اور آٹھ ہزار بھی ثابت ہیں حضرت عمر ؓ کے وقت میں دس ہزار پر عمل ہوگیا تھا امام صاحب اس کو لیتے ہیں۔ پوری انگشت میں دس ابل اور ثلث میں ثلث عشر وعلی ہذا القیاس۔
باب من رضخ رأسہ
جمہور کے نزدیک صرف مقتول کے کہنے سے قاتل سے قصاص نہیں لیاجاسکتا۔ چنانچہ یہاں جب یہودی نے اقرار کرلیا