ناخن اور بال کٹوانا ہلال ذی الحجہ کے بعد امام صاحب کے نزدیک بھی جائز ہے مستحب نہ کٹواناہے۔
باب النذور
اس بارہ میں دیگر روایات بھی ہیں بعض میں صرف لا نذر فی معصیۃ اﷲ آتا ہے کفارہ کاذکر نہیں۔ پس امام صاحب ودیگر بعض ائمہ نذر کو منعقد فرماتے ہیں اور کفارہ واجب کہتے ہیں۔ علیہ کفار تہا سے یمین اور وجوب کفارہ صاف ثابت ہے۔ امام شافعی وبعض ائمہ فرماتے ہیں کہ کفارہ نہیں آتا۔ وہ اس جملہ وعلیہ کفارتہا کو ثابت نہیں مانتے۔
باب استثناء فی الیمین
جمہور کے نزدیک متصلاجائز ہے، بعض علماء منفصل کو بھی جائز کہتے ہیں، حج میں نذر مشی کر کے اگر قادر نہ ہو تو دم دے۔ عندالامام کم ازکم شاۃ ہو۔ نذر کرنا کچھ پسندیدہ نہیں کیونکہ یہ تو بخیلوں کا طرز ہے۔ رد قضا تو ہوتا ہی نہیں۔ یا تاویل کی جائے کہ ممنوع وہ نذر ہے کہ اس کو موثر سمجھے۔ فعل نذر گو مکروہ ہے مگر منذور کے ادا کرنے کاثواب ملنے میں شک نہیں۔
باب
حالت کفر میں جو نذر کسی امر مشروع کی کی جائے بعض علماء اس کا پورا کرنا واجب فرماتے ہیں لیکن اکثر کی رائے یہی ہے کہ واجب نہیں۔ اگر ثواب کے لئے ادا کرے تو جائز ہوگا مگر واجب نہیں۔اعتکاف کے لئے عندالامام صوم شرط ہے پس کہاجائیگا کہ روایت میں لیلۃ سے مراد لیل مع الیوم ہے چنانچہ دوسری روایت میں صرف یوم مذکور ہے۔ پس اس طرح جمع کرنے سے تعارض بھی نہ رہے گا اور مذہب امام کے خلاف بھی نہ ہوگا۔
باب حلف بغیر ملتہ
اسلام میں بشرط حنث کفارہ واجب ہوتاہے عندالامام۔ دیگر ائمہ کفارہ واجب نہیں فرماتے۔ اصل خلاف اس میں اور مالا یملک اورنذر فی المعصیت میں اس پر مبنی ہے کہ نذر منعقد ہوتی ہے یانہیں؟ حلف بغیر ملتہ اسلام میں اگرحانث ہوگیاتو یہودی یانصرانی نہ ہوجائے گا باتفاق الائمہ لیکن اس نے بڑا گناہ کیا چنانچہ روایات میںآتاہے کہ جو اس قسم کی یمین کرکے حانث ہوتو وہ ویسا ہی ہے اور اگر حانث نہ ہوا تب بھی بکمال ایمان نہ لوٹا بلکہ ایمان میں فرق آیا۔
باب قضاء نذر عن المیت
ضروری ہے اگر وہ وصیت کرگیا ہے اور مال چھوڑگیا ہے۔
باب الدعوۃ قبل القتال