بھی شریک ہو کر جمعہ ہی ادا کرلے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ادراک رکعت واحدہ پر کل نماز کے ثواب کا وعدہ تھا اب اگر کسی جز میں شریک ہوا تو پورا ثواب نہ سہی کم کسی قدر ہو ملا تو سہی ۔ باقی ادراک رکعت جمعہ وغیرہ سے اس روایت میں بحث نہیں یہاں تو ثواب کو فرما رہے ہیں ۔ امام محمد ایک رکعت تک جمعہ کا حکم ، اس سے کم میں ظہر ادا کرنے کو فرماتے ہیں ۔ قیلولہ بعد الجمعہ کا یہ مطلب ہے کہ بوجہ اہتمام و شغل فی الخطبہ والصلوۃ کے تغدی اور قیلولہ کی نوبت بعد الجمعہ آتی تھی نہ یہ کہ جمعہ سے فراغت ہی کھانے کے وقت سے اور قیلولہ کے وقت سے پہلے ہو چکتی تھی اور وقت ہی ان امور کا بعد الجمعہ آتاتھا (موطا امام مالک کا ابواب الجمعہ دیکھو توایک عمدہ روایت ملے گی ۔(راقم)تبدل مجلس سے چونکہ انقطاع نوم ہو جاتاہے لہذانوم عند الخطبہ کا علاج یہی بتلایا گیا ہے ۔ جمعہ کے دن سفر کرناجائز ہے چنا نچہ روایت سے خود ثابت ہے لیکن یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ کوئی ضرورت ہو تب سفر کرنا جائز ہے البتہ وقت صلوۃ داخل ہونے کے بعد ادا ئے جمعہ سے پہلے سفر نہ کرے۔
ابواب العیدین
خروج الی المصلی ماشیا مستحب ہے بلا عذر سوار ہونا خلاف اولی ہے ۔ عید کی نماز میں بالاتفاق اقامت و اذان نہیں ۔ یہاں ترمذی بھی اہل علم کا اس پر عمل بتلاتے ہیں کہ نوافل کے لئے اذان نہیں ۔ پھر معلوم نہیں کہ تہجد میں کس لئے اذان کے قائل ہو گئے ۔ تکبیرات عیدین کی تعداد اور محل میں اختلاف ہے ۔ امام صاحب دونوں قراتوں کو متصل رکھنے کے لئے پہلی رکعت کی ابتدامیں اور دوسری میں بعد القراۃ یعنی اخیر رکعت پر تکبیرات فرماتے ہیں اور مجموعی تعداد تکبیرات کی کل چھ فرماتے ہیں ۔ غرض تکبیرات عیدین میں امام صاحب ابن مسعود کے اثر پر عمل کرتے ہیں کیونکہ زیادہ تکبیرات میں احتمال ہے کہ راوی کو بوجہ مجمع و کثرت مصلیان شبہ ہوا ہو کہ غیر کی تکبیر کو تکبیر امام سمجھا ہو اس لیے زیادہ تکبیرات روایت کیں ۔ نیز یہ تکبیرات فی الصلوۃ خلاف اصل ہیں لہذا ابو حنیفہ اقل کو اختیار فرماتے ہیں لان فیہ الاحتیاط ۔ مجمع میں اگر امام وغیر امام کی تکبیروں میں خلط اور اشتباہ ہوجائے تو چاہیے کہ جب تکبیر سنے فورا یہ بھی تکبیر کہہ لے گو دس بارہ تکبیروں کی نوبت آجائے اس لیے کہ اس طرح پر ان کے ضمن میں وہ تکبیریں بھی ادا ہو جائیں گی جو امام کہہ رہاہے ، گو زواید بھی کہی گئیں مگر اصل تو فوت نہ ہوئی ۔ خمس تکبیرات قبل القراۃ کا یہ مطلب نہیں کہ پانچوں تکبیریں قبل القرات