ثابت کرتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ کیا فاطمہ خدا سے نہیں ڈرتی جو اس قسم کی روایت کرتی ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ فاطمہ کو سکنیٰ اس لئے نہ دلوایا گیا کہ وہ زبان دراز تھیں گو اصل سے واجب ہے یہ سب خلاف طلاق ثلٰث اور غیر حامل میں ہے حاملہ کا نفقہ وسکنیٰ بالاتفاق واجب ہے اور اسی طرح مادون ثلٰث میں بھی نفقہ وسکنیٰ ہردو واجب ہیں۔
باب الطلاق قبل النکاح
تعلیق بالنکاح والشراء عند الامام جائز ہے۔ معینہ ومنسوبہ الی الکورۃ والدار وغیرہ میں اور بعض ائمہ بھی متفق ہیں ۔ ہاں یہ طلاق و عتاق غیر مملوک میں نہیں بلکہ وہ تو بوقتِ وقوع نکاح و ملک ہوگا۔ البتہ امام شافعی بعض صورتوں میں غیر مملوک کو بھی آزاد کرادیتے ہیں۔ یعنی جب عبد مشترک کو کوئی آزاد کرے تو دوسرے کا مملوک حصّہ بھی بلا کسی تفریق کے آزاد ہوجائیگا اور کسی قسم کا توقف والتواء نہ ہوگا بلکہ اسی وقت سب کا سب آزاد ہوجائیگا۔ اب یہ عتق مالایملک نہیں تو اور کیا ہے ۔ امام صاحب بھی بالآخر آزاد کراتے ہیں لیکن نہ اسی وقت ، بلکہ یا تو باعتاق الشریک الثانی یا بالسعی وغیرہ۔ بس اب شوافع کا عمل اس حدیث پر کہاں ہوا جو ترمذی نے والعمل علی ہذا میں اور علماء کے ساتھ شوافع کو شمار کرلیا۔ اگر مثلاً ایک غلام کے ہزار حصّے ہوں تو ایک کے آزاد ہونے سے نوسوس نناوے حصّے بھی آزاد ہوجائیں گے۔ پس یہی تو اعتاق مالا یملک ہے۔ ابن مبارک کے قول سے یہ معلوم ہوگیا کہ ایمان کی بات یہ ہے کہ جس قول کی تصدیق اور اس پر عمل کرتا ہو ذرا سے نفع کے لئے اسکو چھوڑ نہ دے یہ نہیں کہ حنفیہ کا قول آسان دیکھا اسی پر عمل کرلیا۔ شوافع کی بات موافق مدعا دیکھی اسی طرف کے ہو رہے۔
باب طلاق الامۃ
امام صاحب کا مذہب تو پورا حدیث کے موافق ہے لیکن شوافع کا مذہب بھی ترمذی یہی کہتے ہیں اور ہمار ی کتب میں جو شوافع کا مذہب لکھا ہے وہ یہ ہے کہ شوافع زوج کی حریت وعدم حریت کا اعتبار کرتے ہیں۔ یا تو روایتیں انکے مذہب کی دو ہیں یا نقل مذہب میں کسی سے غلطی ہوئی۔ اگر وہی مذہب ہے جو کتب حنفیہ میں منقول ہے تو حدیث ان پرحجت ہے اور اگر حنفیہ کے موافق ظاہر حدیث پر عمل ہے تو پھر عدتہا حیضتان کو کیوں نہیں قبول فرمالیتے ایک روایت میں۔ پس عدت بالحیض ہونے اور اعتبار طلاق بالنساء دونو ں مسئلوں پر حنفیہ کی یہ حدیث دلیل ہے اور شوافع پر حجت ہے۔
باب الخلع
جمہور کے نزدیک خلع کی عدت تین حیض ہیں کیونکہ وہ بھی ایک قسم کی طلاق ہے چنانچہ ایک روایت میں الخلع طلاق وارد ہے اور آیت سے بھی یہی مفہوم ہوتا ہے ۔ پس یہ حدیث عند الحنفیہ مترورک العمل ہے شوافع اور بعض ائمہ ایک حیض کی