دباغت سے جلد پاک ہوجاتی ہے اصح الاقوال یہی ہے کیونکہ حدیث میں عموم ہے اور اگر اھاب کے معنی جلد میت ہی کے ہوں تو پھر اور بھی تصریح سے عموم ہوجائے گا۔ اس میں اختلاف بہت ہے ایک قول یہ ہے کہ جلد ماکول طاہر نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں کہ امام مالک کا بھی یہ قول ہے۔ امام اسحق فرماتے ہیں کہ ماکول کی جلد دباغت سے پاک ہوجاتی ہے اور غیر ماکول کی پاک نہیں ہوتی اور جمہورکے نزدیک ماکول وغیر ماکول سب کی جلد پاک ہوجاتی ہے مگر نجس العین بوجہ نجاست کے اور انسان بسبب حرمت (تعظیم) کے کلب میں اس لئے اختلاف ہے کہ اس کا نجس العین ہونا مختلف فیہ ہے۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمادیا ہے کہ لا تنتفعوا من المیتۃ باہاب لیکن جواب اس کا یہ ہے کہ دباغت کے بعد وہ اہاب بھی نہیں رہتا۔ یا اگر اہاب عام ہوتو کہاجائے کہ نہی قبل الدباغت کی ہے۔عصبت یعنی پٹھے عندالحنفیہ طاہر ہوتے ہیں۔
باب جرالازار
اگر بلاخیلا ہو تو بھی نہ چاہیے کیونکہ شعار اہل تکبر ہے اور پھر من تشبہ بقوم موجود ہے۔ ہرایک کپڑے میں اسبال ہوسکتاہے عمامہ کا اسبال یہ ہے کہ شملہ اس کا موضع نطاق سے زیادہ ہو۔ عمامہ کا شملہ آپ ﷺ نے ایک بھی اور دو بھی اور کبھی پیچھے اور کبھی جانب راست بھی چھوڑا ہے۔ لیکن جانب چپ ثابت نہیں یہ بدعت ہے۔ بہتر شملہ ایک ذراع ہے اجازت موضع نطاق تک کی بھی ہے یعنی ناف کے مقابل تک۔
باب الخاتم
مردوں کو ذہب جائز نہیں چنانچہ آپ ﷺ نے نکال کر ڈالدی اور سب نے ایسا ہی کیا۔ آپ ﷺ کے خاتم فضہ کا فص بطرز حبشہ چاندی کا بنا ہوا تھا۔ یا کہاجائے کہ ایک خاتم کا فص چاندی کا بنا ہوا تھا اور ایک کا عقیق وغیرہ کاتھا جو حبشہ کی طرف کا تھا۔ بہتر تو خاتم اسی کے لیے ہے جس کو ضرورت مہر کی ہو لیکن جائز سب کے واسطے ہے البتہ لایزید علی مثقال شرط ہے۔ یہ بھی پسندیدہ نہیں کہ نقش بالکل نہ ہو یا ہو مگر اپنے نام کے سوا اورکچھ منقوش کرالے بلکہ اپنا نام کندہ کرانا چاہیے تختم فی الیمین چونکہ شعار روافض ہوگیا ہے لہٰذا فی الیسار چاہیے تاکہ خلاف رہے اور ان سے مشابہت نہ ہو۔ بہتر واحسن یہ ہے کہ خنصر میں پہنے وسطیٰ میں نہ پہننا چاہیے کیونکہ کاروبار میں اس سے اکثر مدد لینی ہوتی ہے اور اکثر کام میں انہیں انگلیوں کی ضرورت رہتی ہے۔ خلا میں جانے کے وقت خاتم نکال دینا چاہیے تاکہ بے ادبی نہ ہو۔ اور اگر بھول گیا تو وہاں جاکرہاتھ میں لیکر مٹھی بند کرلے تاکہ استعمال نہ پایاجائے آنحضرت ﷺ نے اپنے مانند نقش کی اس لیے ممانعت فرمائی کہ دوسروں کو اس سے کچھ فائدہ نہ ہوگا اور آپ ﷺ کی مہر سے جو فائدہ اور غرض تھی وہ جاتی رہے گی اور خصوصیت باطل ہوجائے گی۔