پورے دنوںکی قضا آئے گی سنت ونفل اعتکاف میں نہیں۔ امام مالک اعتکاف کے بارہ میں ذرا تشدد کرتے ہیں ان کے نزدیک جامع مسجدضروری ہے۔ خروج للعبادۃ وغیرہ امام صاحب کے نزدیک نفل اعتکاف میںجائز ہے اگر شرط کرلی ہو۔
باب لیلۃ القدر
بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ عشرہ اواخر میں ہے بعض سے ’’لیالی اوتار‘‘ اور بعض سے بالتعیین بعض خاص لیالی میں۔ امام شافعی سوال پرحمل کرتے ہیں کہ جس نے جس وقت کی نسبت دریافت کیا کہ اس میں تلاش کریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ ہاں اور بہتر یہ ہے کہ دائر سائر مانا جائے اس میں کسی طرح تعارض روایات نہیں رہتا۔ ہر ایک شب کی نسبت جس قدر روایات میں آیا ہے سب میں احتمال ہے کبھی کسی میں اور کبھی کسی میں۔ اس صورت میں ابی بن کعب کا حلف کرنا بھی درست ہوجائیگا کہ انہوں نے اسی شب میںپایاہوگا۔ ورنہ شوافع کے قاعدہ اور طرز پر اس حلف میں اور دوسری روایت میں تعارض ہوگا۔ تسع یبقین یعنی مع اس شب کے نو باقی رہیں جس میں تلاش کریں اسی طرح آخر تک سبع وخمسین وثلث میں یہ مراد ہے کہ اس لیل ملتمس فیہ کے(یعنی جس میں تلاش کرتے ہیں مع اس کے) سات اور پانچ اور تین باقی رہیں اس طرح پر ۲۹ یوم کے حساب سے یہ وتر راتیں ہوجاتی ہیں یعنی اکیس وتائیس وپچیس وستائیس اورآخر لیلہ سے مراد انتیسویں شب ہے۔
باب علی الذین یطیقونہ
میں اس تقدیر پر نہ ہمزہ کو سلب کے لئے کہنا پڑے گا اور نہ لا مقدر ماننا۔ بلکہ آیت کاحکم منسوخ ہوگا کما یظہر من الروایت۔
جمہور کا یہ مذہب ہے کہ قبل خروج من البلد افطار واکل جائز نہیں۔ ممکن ہے کہ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہر سے باہر ٹھہرے رہے ہوں چنانچہ اہل عرب کی یہی عادت ہے کہ سفر سے پہلے اسباب وغیرہ باندھ کر شہر سے باہر آکر ٹھہر جاتے ہیںپھر روانہ ہوتے ہیں محمد بن کعب نے وہاں کھانا کھاتے دیکھ کر تعجب کیا کہ شہر متصل ہے اور سفر شروع نہیں ہوا۔ ابھی سے افطار کرلیا۔ انس نے جواب دیا کہ سنت ہے۔ غرض جمہور اس کو بھی قصر صلوٰۃ کی مانند کہتے ہیں کہ قبل خروج جائز نہیں۔ تحفہ صائم ظیب وبخور ہونے سے یہ مطلب ہے کہ تحفہ ماکول تو وہ کھانہیں سکتا اس کے لیے یہ تحفہ مناسب ہے معلوم ہواکہ خوشبو اور بخور اور دہن سے روزہ نہیں جاتا۔
باب التراویح
تراویح کی سنت میں اختلاف نہیں نہ جماعت میں خلاف ہے۔ البتہ تعداد رکعات میں اختلاف ہے بعض اکتالیس مع الوتر