ہوگی کیونکہ انکے زوج کا صرف مسلمان ہوجانا مہر قرار دیا گیا اور وہ مال تھا نہ ذریعہ مال حنفیہ اس قسم کی تمام صورتوں کا نکاح بلا مال پر حمل کرتے ہیں ۔ جب شوافع ذریعہ مال اور مایحصل بہ المال کو بھی مہر مقرر کرنا جائز فرماتے ہیںتو معلوم نہیں شغار میں کیوں عدم جواز کے قائل ہیں۔ حنفیہ گو مہر مثل واجب کرتے ہیں مگر نکاح کے توقائل ہیں مگر شوافع کو تو چاہیے کہ اسمیں صحت نکاح کے قائل ہوجائیں۔
باب نکاح حلالہ
نکاح حلالہ منعقد ہوجاتا ہے۔ لغت سے یہ لازم نہیں کہ نکاح بھی منعقد نہ ہو۔ اسمیں شبہ نہیں الحلالۃ غیر طیّب لان حرامًا دون حرام۔
باب نکاح متعہ
نکاح متعہ بالاجماع منسوخ و حرام ہے امام زفر موقت کو جائز کہتے ہیں کہ شرط توقیت لغو ہوجائیگی اور نکاح ہوجائیگا۔ متعہ کا نسخ دو دفعہ ہوا ہے ایک دفعہ خیبر میں اور ایک دفعہ غزوہ اوطا س میں۔ بعض علماء صرف ایک دفعہ نسخ مانتے ہیں۔ عبداللہ بن عمرؓ وابن عباس ؓ کی رائے اول میں تو عدم نسخ کی تھی لیکن انکا رجوع ثابت ہے۔
باب الشرط فی النکاح
امام صاحب ؒکے نزدیک اس قسم کی شروط داخل عقد نہیں۔ پس اگر انکو وفا نہ کرے تو نکاح میں کچھ خلل نہ ہوگا۔ اور جس سے شرط کی تھی اس پر دوسر ا نکاح کرلینا یا اسکو اس شہر سے دوسری جگہ لیجانا جائز ہوگا۔ البتہ وعدہ خلاف کا گناہ ہوگا اور خلف وعدہ کی وعید اور سزا کا مستوجب ہوگا۔
باب من اسلم ولہ عشرۃ
شوافع اور دیگر ائمہ فرماتے ہیں کہ مطلقًا چار کو پسند کرکے رکھ لو اور حنیفہ کہتے ہیں کہ وہ چار باقی رہیں گی جو نکاح کی ترتیب میں مقدم ہونگی یتخیر اربعًا کے وہ یہی معنیٰ بیان فرماتے ہیں کہ چار سابقہ النکاح کو اختیار کرے۔ اس طرح اختین میں جو قدیم النکاح ہوگی وہ باقی رہے گی۔
باب الخطبۃ علی الخطبۃ والبیع علی البیع
اس وقت مکروہ ہے کہ مخطوب و بائع کی رضا بہ نسبت خاطب و مشتری اوّل معلوم ہوتی ہو۔ چنانچہ فاطمہؓ بنت قیس کو آپﷺ نے اُسامہ ؓ کا پیا م دیا کیونکہ پہلے خاطبین سے رضا معین نہ ہوئی تھی۔