بحالہ رہے باقی میں امام مالک ؒ کا مسلک۔ امام صاحب ؒ کے سوا اور مذاہب میں راجح مذہب امام شافعی ؒ کا ہے اور اصل امام صاحب ؒ کے بعد التسلیم فرمانے کی یہ ہے کہ جب سجدہ سہو جزء صلٰوۃ نہیں۔ پس فصل ہونا چاہیے ۔ظاہر ہے کہ جزء صلوٰۃ نہیں۔ کیونکہ یہ کیا کہ خواہ کوئی واجب کسی قسم کا ترک ہو اسکے قائم مقام سجدہ سہو ہوجائے البتہ جابر نقصان ہے پس جزء نہ ہوا۔
باب سجدۃ السہو بعد السلام والکلام
اس باب کی حدیث میں تو آپ کا کلام ثابت نہیں اور جواب آسان ہے کہ صحابی ؓ کی نماز نہ ہوئی ہوگی۔ البتہ دوسری حدیث مفصل ہے اور ثبوت میں کلام نہیں۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ یہ ابتدائے اسلام وصلوٰۃ کا قصّہ ہے اسکے بعد قُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ وغیرہ آیات سے منسوخ ہوگیا۔ شوافع اسکو کلام سہوًا پرحمل فرماتے ہیں اور اب تک اسی کے قائل ہیں کہ سہوًا کلام سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس قصہ کو کلام سہوًا پر حمل کرنا کس قدر بعید ہے اول تو یہ کہ صحابہ ؓیہ کس طرح سمجھ سکتے تھے کہ نماز میں تغیر ہوا ہے اور نماز نام ہوگئی کیونکہ عادت شریف یہ نہ تھی کہ چُپ چپاتے حکم پر عمل فرمالیں اور اُمت کو اعلان اور اطلاع نہ دیں اور اگر تسلیم بھی کیا جائے کہ وہ لوگ یہ سمجھے کہ شاید نماز کا حکم بدل گیا ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ ﷺ کو سہو ہوا ہو۔ پس وہ متردد ہوگئے اگرچہ پورا یقین تمام صلٰوۃ کا نہیں ہوسکتا۔ مگر خیر اسے بھی مان کر بتلایئے کہ اسکے بعد کے مکالمہ کو کس پر حمل کیا جاویگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کل ذٰلک لم یکن کیا یہ عمدًا نہ تھا۔ اور اگر اسکو بھی سہو ہی پر حوالہ کیجئے تو پھر جو ذو الیدین نے کہا کہ بعض ذالک قد کان کیا اب بھی انکو نماز پوری ہوجانے کا احتمال تھا اب تو جناب سرورِ کائنات ﷺ کا سہو یقینی ہوگیا تھا کیونکہ وحی کو تو نعوذ باللہ آپ ﷺ اس قدر نسیًا منسیًا نہ فرماسکتے تھے پھر بھلا ذوالیدین کا یہ کلام کس بات پر حمل کیاجائے گا اور لیجئے کہ آپ ﷺ نے لوگوں سے پوچھاکہ اصدق ذوالیدین انہوں نے کہا نعم پس کیا یہ بھی خطا و سہو ہی ہے اور کیا اتنے قصّہ کو بھی سہو خیال کیاجائے گا اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ حجرہ شریف کے دروازہ تک پہنچ گئے ۔ اور یہ کہ آپ ﷺ ایک لکڑی پر سہارا لگا کر متفکرانہ بیٹھ گئے۔ بھلا کیا یہ مشی الیٰ الحجر وغیرہ مفسد نماز نہ تھی معلوم ہوا کہ صحیح یہی ہے کہ یہ پہلا حکم تھا اب منسوخ ہے ۔ نسخ میں شوافع یہ عذ ر پیش کرتے ہیں کہ یہ قصّہ نسخ الکلام فی الصلٰوۃ کے بعد کا ہے لہٰذا منسوخ نہ ہوگا کیونکہ ابوہریرہ ؓ اسکے راوی ہیں اور وہ مؤخر اسلام ہیں کما لایخفیٰ ۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ ممکن نہیں کہ ابوہریرہ ؓ اسی واقعہ میں موجود ہوں کیونکہ ذوالیدین بدر میں شہید ہوگئے تھے اور ابوہریرہ ؓ خیبر کے ہیء بعد آئے ہیں شوافع کہتے ہیں کہ بدر میں شہید ہونے والے ذوالشمالیں ہیں نہ ذو الیدین پس یہ دو شخص ہیں ایک بدر میں شہید ہوگئے اور ایک قصّہ میں موجود تھے (مگر بہت سے شوافع اسکو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ دونوں نام ایک ہی