کررہے ہیں اور دیگر روایات کے بھی خلاف ہے۔ مبنیٰ اختلاف کا یہ ہے کہ بسملہ فاتحہ کا جزو ہے یانہیں۔ امام شافعی ؒ چونکہ جزو فاتحہ کہتے ہیں لہٰذا اسکے جہر کو ضروری فرمائیں گے اور حضرت امام صاحب ؒ چونکہ جزو نہیں کہتے لہٰذا جہر کو بھی نہیں مانتے اس روایت کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ ممکن ہے کہ آپ ﷺ نے احیاناً تعلیم کے لئے سناد یاہو ورنہ پہلی حدیث میں یَا بُنَیَّ مُحَدثٌکس لئے کہتے ہیں۔
باب افتتاح القراء ۃ
امام کے موافق اور امام شافعی ؒ کے مخالف ہے ۔ اب امام شافعی ؒ صاحب نے اپنے موافق ایک معنیٰ تجویز فرمائے بیشک ان معنیٰ کا یہی احتمال بعید ان الفاظ سے ہوسکتا ہے اور ظاہر معنیٰ تو ظاہر ہی ہیں لیکن امام شافعی ؒ کے معنیٰ لینے سے یہ روایت گذشتہ روایت اور دیگر روایات کے مخالف ہوجاتی ہے کیونکہ اُن روایات سے جن حضرات کا عدم جہر بہ بسملہ ثابت بصراحت تھا یہاں خاص انہیں حضرات کا جہر ثابت ہوجائے گا۔ ہاں امام صاحب ؒ کے معنیٰ ظاہر ہیں اور روایات میں بھی بموجب یقوی بعضہا بعضًا تطابق ہوگیا کسی قسم کا خلاف نہیں ۔ انصاف سے دیکھئے تو امام صاحب ؒ کوئی احتمال بعید بیان کرتے اور اس سے تطبیق بین الروایات ہوجاتی تو وہی قابلِ قبول ہوتا یہاں تو صریح معنیٰ اور تطبیق ہر دو امر موجود ہیں اور معنیٰ مخالف میں بہت سی خرابی ہے پس وہی معنیٰ قابلِ تسلیم ہیںجو ظاہر ہیں۔
باب لا صلوٰۃ الابفاتحۃ الکتاب
اختلاف اس بارہ میں دو ہیں۔ ایک یہ کہ فاتحہ فرض ہے یا نہیں ۔ دوسرے یہ کہ مقتدی ومنفرد وامام سب پر فرض ہے یا صرف امام ومنفرد پر یہاں ترمذی کو صرف فرضیت سے بحث ہے۔ فرضیت للماموم کا مسئلہ آئندہ ذکر ہوگا۔ یہ حدیث شوافع کے لئے سب سے عمدہ استدلال ہے۔ اس کا جواب ایک تو حنفیہ میں یہی مشہور ہے کہ نفی کمال فرمائی گئی ہے نہ نفی جواز و ادا اور بروئے انصاف کچھ بعید بھی نہیں معلوم ہوتا کیونکہ اس سے پہلے اس روایت کو جس میں او سورۃ معھاوارد ہے امام شافعی ؒ نفی سنت پر حمل کر آئے ہیں۔ پس امام صاحب ؒ نے کیا کچھ نئی بات کردی کہ نفی کمال اور ترک واجب پر حمل کرلیا یہاں اعادہ تو لازم آئے گا ۔ بخلاف شوافع کے جو دربارہ سورۃ صرف رفع سنیت پر حمل کرتے ہیں اورترک سورۃ سے اعادہ لازم نہیں فرماتے اسی معنیٰ کے موئد وہ روایت ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ فصلوتہ خداج خداج غیرتمامٍ اس میں صاف طور سیغیرتمام فرمایا گیاہے نہ غیرصحیح اس سے پوری تقویت اسی کو ہوتی ہے کہ نفی کمال مقصود ہے ایک جواب اصولی لکھتے ہیں کہ فاقرؤا ما تیسر میںاور اسمیں بظاہر تعاروض ہوا۔ پس ہم نے آیت کو فرضیۃ پر اور حدیث کو کمال ووجوب پر حمل کرلیا۔ صحابہ ؓ کے لاتجزی فرمانے سے بھی فرضیۃ ثابت کرنا ذرا بعید ہے کیونکہ لا تجزی توغیر کامل پر بھی صادق آتا ہے ۔