باب مفتاح الصلٰوۃ الطہور
تحریمہا التکبیر الخ اللّٰہ أکبر کی جگہ اللّٰہ أجل یا الرحمن أکبر بھی کہہ لیا تو امام صاحب کے نزدیک تحریمہ درست ہوجائے گا۔ اور ایسے ہی ’’السلام علیکم ‘‘یا کسی دوسرے فعل سے خروج عن الصلٰوۃ چاہیے۔ یہ حدیث خبر واحد ہے ۔ اس سے فرضیت نہیں ثابت ہوسکتی البتہ وجوب ثابت ہے باقی طہور کی شرطیۃ آیت وضؤ اور دوسری روایات سے ثابت ہوتی ہے۔
باب مایقول اذا دخل الخلاء
دخل سے ارادۂ دخول مراد ہے خبث جمع’’ خبیث ‘‘کی اور’’ خبیث‘‘ ضد ’’طیب‘‘ ۔’’خبائث ‘‘جمع’’ خبیثہ ‘‘ :’’مؤنثِ شیاطین۔‘‘
باب النہی عن الاستقبال عند الخلاء
امام صاحب کے نزدیک آبادی ہو یا صحرا استقبال واستدبار ہر دو مکروہ تحریمی و ناجائز۔ عند الشافعی صحرا میں ہر دو منع اور بنیان میں ہر دو جائز صحابہ کا ننحرف عنھا ونستغفر اللّٰہ فرمانا بھی امام صاحب کا مؤید ہے (وفیہ طول)۔
باب البول قائمًا
آ پ ﷺ نے ایک مرتبہ بوجہ عذر کے قائمًا کرلیا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ کا انکار بھی درست ہے کیونکہ عادت شریفہ یہ نہ تھی۔ یا انکو خبر نہیں ہوئی۔ آپ کو یا مرض کا عذر تھا یا خوف تلویث یا صرف بیان جواز۔ (وفیہ طول فی غیر ہذا التقریر)
باب الاستنجاء بالحجرین
اگر دو ڈھیلوں سے بھی استنجاکرے گا تو عند الحنفیہ سنتِ استنجا ادا ہوجائیگی۔ لیکن عند الشوافع تین سے کم میں نہیں ہوتی۔ بعض حنفیہ نے اس حدیث کو مستدل ٹھہرایا ہے۔ لیکن اس سے اکتفاء علی الحجرین ثابت نہیں ممکن ہے کہ آپ نے ایک اور حجر بذات خود تلاش فرمالیا ہو یا کسی اور کو یا خود انہیں صحابی کو ایک اور تلاش کرنے کا حکم فرمایا ہو پس بہتر جواب شافعیہ کے مقابل وہ حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا :’’من اکتحل فلیوتر من فعل فقد احسن ومن لا فلا حرج ومن استجمر فلیوتر من فعل فقد احسن ومن لا فلاحرج۔‘‘
( رواہ أبو داؤد)
غرض عند الحنفیہ بھی احسن اور عمدہ یہ ہے کہ تین سے کم نہ ہوں لیکن سنت دو میں بھی ادا ہوجائے گی۔
باب البول فی المغتسل