قائل ہیں اور نماز میں حیلہ کرتے ہیں لیکن بروئے انصاف یہ بات ظاہر ہے کہ صوم کی حقیقت امساک عن اشیاء ثلٰثہ ہے ممنوعات میں اکل ناسیًا بھی داخل تھا۔ اور چاہیے تھا کہ اسمیں بھی فساد صو م ہوجائے لیکن ہم کو حدیث سے معلوم ہوگیا کہ انما ہو رزق اللّٰہ یعنی اس سے فساد صوم نہیں ہوتا اور حدیث بھی قول جو صراحۃًمداع پر دال ہے ایسے ہی کلام فی الصّلٰو ۃ میں امر بالسکوت فرمایا ہے پس کلام ناسیًا بھی مفسد نماز ہوگا۔ اب شوافع کی کوئی تخصیص بتلائیں۔ لیکن اس میں سواء اس حدیث فعلی کے کوئی استدلال نہیں۔ حدیث میں چند احتمال مخالف مدعا اقرب الی الفہم موجود اور پھر حنفیہ نسخ کے مدعی ، تو اب بھلا کسی طرح حدیث صوم کو صلٰوۃ کے مسئلہ میں پیش کرنا درست ہوگا۔ صحابہ ؓ تو احتمال نسخ سے بھی بچتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم کو حدیث جرید بن عبداللہ ؓ دربارہ مسح خف بہت خوشی معلوم ہوتی تھی کیونکہ ان سے اسکی تاریخ پوچھی کہ یہ قبل از نزول المائدہ کا قصّہ ہے یا بعد المائدہ کا۔ انہوں نے فرمایاکہ میں نے تو اسلام ہی بعد نزول مائدہ قبول کیا ہے۔ پس صحابہؓ کو جو احتمال وشک نسخ تھا وہ زائل ہوگیا۔ پھر یہاں جو صریح احتمال نسخ ہے اور اسکے سوا معنیٰ بن ہی نہیں سکتے کیونکہ کلام سہوًا پر اسکو حمل کرنا سراسر بعید ازفہم (کما مرّ) کیا حجرہ کے قریب تک جانا اور مصلے تک واپس آنا فعل کثیر نہ تھا جو عند الشافعیہ بھی مفسد صلٰوۃ ہے اسی طرح تمام مکالمہ من اولہ الیٰ آخرہ کس طرح سہو میں خیال کیا جاتا کیونکہ آپ ﷺ کے ایک دفعہکل ذٰلک لم یکنفرمانے سے ظاہر ہوگیا تھا کہ نماز تمام نہیں ہوئی اور حکم نہیں بدلا۔ اور اگر سب کچھ بھی نسیان ہی پر بالفرض حمل کرلیا جائے تو یہ آپ ﷺ کا فرمانا کس طرح نسیان یا خطاء پر حمل کرلیا جائے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب میں بھول جاؤں تو یاد دلادیا کرو فانما انا بشر مثلکم ۔روایت سے اس ارشاد کا قبل اتمام صلٰوۃ فرمانا بھی ثابت ہے گو بعد الصلٰوۃ بھی فرمانا مروی ہے لیکن مدعائے حنفیہ کو مضر نہیں اس لئے کہ وہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ ﷺ نے قبل الاتمام اور بعدالاتمام دونوں دفعہ فرمایا ہوگا۔ الحاصل کوئی حجت قویہ مخصصہ شوافع کے پاس نہیں ہے البتہ حنفیہ تو صوم میں ایک صریح حجت منصصہ اپنے مدعا کے لئے پیش کردیں گے۔ دوسرے خطا اور نسیان میں بہت بڑا فرق ہے سہو میں عمدًا ایک کام کیا جاتا ہے لیکن حالت ہی کو فراموش کیا ہوا ہوتا ہے بخلاف خطا کے کہ وہاں حالت تو یاد ہوتی لیکن بلا قصد کوئی فعل صادر ہوجاتا ہے پس صوم کے بار ہ میں حنفیہ کا فرق بین الخطاء السہو کوئی بے موقع امر نہیں امام احمد ؒ کے صرف تزادو تنقص الخ فرمانے سے کام نہیں چلتا جب تک یہ نہ ثابت کردیں کہ جمیع صحابہ ؓوخود آنحضرتﷺ اور ذوالیدین کا کلام من اولہٖ الیٰ آخرہ سہو وخطا تھا اور آخر تک یہی یقین رہا کہ نماز تمام ہوگئی یہ تو ایسی صورت ہے کہ لامحالہ شافعیہ کو بھی صلٰوۃ کے فساد کا حکم لگانا پڑے گا پس نسخ کے سوا چارہ نہیں۔
باب القنوت