أبواب الطہارۃ
عن رسول اللّٰہ صلی اﷲ علیہ وسلم :باب:’’ لا تقبل صلوٰۃ بغیرطہورولا صدقۃ من غلول۔۔۔‘‘۔ قولہ :’’عن سماک بن حرب‘‘: ’’ح‘‘ یہ علامت ’’تحویل‘‘ کی ہے بعض اسکو ’’حا‘‘ پڑھتے ہیں بعض’’ حے ‘‘پڑھتے ہیں اور بعض’’تحویلٌ‘‘ پڑھتے ہیں اور کبھی چھوڑ بھی دیتے ہیں۔ محدثین کے نزدیک تحویل اور اختلافِ رواۃ سے حدیث تبدیل ہوجاتی ہے اور دو حدیثیں شمار ہونے لگتی ہیں۔
عن رسو لاللّٰہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیادتی جو ابواب الطہارات کے بعد ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ جو حدیث بیان کریں گے وہ مرفوع ہوگی۔ اور غیر مرفوع جو ہوگی وہ تبعًا ہوگی۔ یا یہ کہ مقصود اصلی تو حدیث ہی ہے باقی جو اختلافات بیان ہونگے وہ تبعًا ہونگے۔ اور بیان مذاہب گویا بیان ہے. ماروی عن النبیصلی اﷲ علیہ وسلم کا، کیونکہ قول مجتہد بھی قول رسول ﷺ ہی شمار ہوتا ہے لا تقبل صلوٰۃ بغیر طہورچونکہ {یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلوٰۃِ} اور روایت ’’مفتاح الصلوٰۃ الطہور‘‘سے شرطیتِ طہارت ظاہر ہے۔ لہذا امام صاحب اور شافعی اور امام احمد کے نزدیک ’’لاتقبل ‘‘ کے معنیٰ’’ لا تصح‘‘ کے ہیں کہ بلا طہارت نماز ادا نہ ہوگی۔ امام مالک ؒ فرماتے ہیں کہ نفس فرضیت ذمہ سے ساقط ہوجائے گی گو صلٰوۃ مقبول نہ ہو۔ (لیکن یہ مذہب نجاست حقیقی کے بارے میں ہے)۔
قال ابو عیسی الخ: یہ خاص امام ترمذی ؒ کاطریقہ ہے۔ اور محدثین اس سے بحث نہیں کرتے گو انکی روایات اصح ہو ں۔ ایک ہی حدیث کا حسن اور صحیح ہونا بظاہر متعذر ہے لیکن توجیہ یہ ہے کہ ایک طریق سے حسن دوسرے سے صحیح یا عند البعض حسن وعند البعض صحیح یا حسن لذاتہ ولعنیہٖ اور صحیح لغیرہ (جو تعدد طرق سے درجۂ صحت تک پہنچ جائے) یا صحیح اصطلاحی اور حسن لغوی ۔ مگر بعیدہے۔
بابُ الطہور
خرجت کل خطیئۃیا تو صغائر مراد ہوں ۔ یا عام مراد ہوں۔ کیونکہ جب خجالت و ندامت علی الذنوب کے ساتھ وضو کرے گا تو ہر قسم کے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ اور تَوَضَّا ئَ الرجل کے بجائے تَوَ ضَّا ئَ المومن کہنے میں اسی کی طرف اشارہ ہے ۔ کیونکہ مومن وہی ہے جو ذنوب پر نادم ہوں۔ اور اس ذریعہ سے تمام ذنوب وضوء کے ساتھ جھڑ جائیں گے۔ لأن الندم توبۃ۔