تھے چنانچہ حَتّٰے یترادّ الیہ نَفَسہ‘ سے یہ بات صاف ظاہر ہے ۔ پس جن حضرات نے ان دونوں سکتوں کا خیال نہیں کیا اور قابلِ بیان نہیں سمجھا وہ صرف سکتہ بعد تکبیر اولیٰ کو بیان فرماتے ہیں اور جنہوں نے ان دو میں سے ایک کا خیال کیا وہ دو بیان کرتے ہیں اور جس کسی نے ان ہر دو خفیف سکتات کو بھی قابلِ لحاظ سمجھا وہ کل تین بیان کرتے ہیں دونوں خفیف اور ایک عند التکبیر الاولیٰ ۔ امام شافعی ؒ سکتۃ ثانیہ کو سکتہ لقراء ۃ المقتدی کہتے ہیں۔ لیکن اس سکتہ کے نہایت خفیف ہونے سے ظاہر ہے کہ وہ اس لئے نہ تھا۔
باب وضع الیمین علی الشمال
بہتر یہ ہے کہ اس میں زیادہ تشدد نہ کیا جائے۔ ذرا تحت السُرّۃ ہوگیا تب بھی درست اور فوق بھی درست چونکہ سُرہ برہنہ نہ ہوتا تھا لہٰذا رواۃ کے تخمینہ اور بیان میں اختلاف ہوگیا ہے البتہ وضع علی الصدر ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ یہاں سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ آپ ارسال نہ کرتے تھے کما ذھب الیہ امام مالک ؒ۔
باب التکبیر عندالرکوع والسجود
سب کا اس پر اتفاق ہے کہ انتقال الیٰ الرکوع اور تکبیر ساتھ ساتھ شروع ہوں۔ یہ نہیں کہ رکوع میں پہنچنے کے بعد تکبیر کہے یا پہلے کہکر پھر رکوع کی طرف حرکت کرے علی ہذا القیاس سجدہ میں ۔ البتہ بعض مروانیوں نے ایسا کیا۔
باب رفع الیدین
رفع یدین روایاتِ کثیرہ متعددہ سے ثابت ہے اور اس میں شک نہیں کہ آپ ﷺ نے رفع یدین بھی کیا ہے اور نہیں بھی کیا۔ امام صاحب ؒ اسکو معمول بہا نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ خوف کرتا ہو ں کہ مکروہ میں نہ پڑجائے۔ یعنی مصلی بوجہ حرکاتِ زائدہ کہیں امر مکروہ میں مبتلا نہ ہوجائے۔ امام شافعی ؒ اسکو معمول بہا بناتے ہیں لیکن شوافع میں بھی دو قول ہوگئے ہیں ایک تو صرف عندالرکوع اور بوقت رفع من الرکوع مسنون کہتے ہیں اور بعض ان دو مواضع کے ساتھ نہوض الی الرکعت الثانیہ [جب پہلی رکعت کے ہر دو سجدہ کرکے دوسری کے لیے کھڑا ہو۔۱۲]کے وقت بھی مسنون کہتے ہیں۔ البتہ بین السجدتین کا شوافع میں سے کوئی قائل نہیں۔ حنفیہ کی بڑی حجت حدیث عبداللہ بن مسعود ؓ ہے جس سے صرف عندالافتتاح رفع یدین ثابت ہوتا ہے اسکے حسن ہونے کا تو خود ترمذی بھی اقرار کرتے ہیں۔ بعض علماء نے اسکو درجہ صحیح تک پہنچایا ہے اور ظاہر ہے کہ ابنِ مسعود ؓ کو جب پوری طرح ثابت ہوگیا ہوگا جب انہوں نے ترک رفع فرمایا ہوگا۔
دیکھئے تطبیق کہ نسخ کا چونکہ پوری طرح انکو ثبوت نہ ہو لہٰذا اخیر تک نہ چھوڑا ۔ وہ ہر وقت کے خادم و ملازم تھے۔ حتیٰ کہ باہر سے آنے والے حضرات انکو اہلِ بیت میں سے سمجھتے تھے اور درجہ اجتہاد میں بعض نے ان کو شیخین پر ترجیح دی ہے۔